مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے پاک سعودیہ اتفاق
وزیراعظم عمران خان کے دورۂ سعودی عرب کے اختتام پر جاری اعلامیہ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا ہے۔ دریں اثناء مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے مسلسل 48ویں روز سخت فوجی لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ شدید تکلیف میں ہیں‘ جمعہ کے دن وادی کی کسی بھی بڑی مسجد اور خانقاہ میں نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان میں جامع مسجد سرینگر اور حضرت بل کی درگاہ بھی شامل ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں بچوں کی گرفتاری کے واقعات سامنے آنے پر بھارتی سپریم کورٹ نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
پانچ اگست سے گھروں میں بند کشمیریوں کی زندگی بدتر ہوگئی ہے‘ بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم کارکن اناکشی گانگولی نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی فورسز نے پانچ اگست کو شروع ہونیوالے کریک ڈائون میں نوعمر بچوں کو بھی‘ جن کی عمریں دس سال سے زیادہ نہیں ہونگی‘ معاف نہیں کیا۔ اناکشی گانگولی کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے تشدد سے زیرحراست کئی بچے شہید ہوگئے۔ دراصل بھارت کشمیریوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر اسرائیلی طرز کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ تاہم مودی سرکار کے اقدام پر عالمی سطح پر جتنا شدید ردعمل سامنے آیا ہے‘ بی جے پی کی حکومت کو اسکی توقع نہیں تھی۔ آر ایس ایس کی فلاسفی اور حکمت عملی کی پیروکار مودی سرکار نے آئین میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق خصوصی دفعات 370 اور 35اے منسوخ کرکے بارود کے ڈھیر کو آگ دکھائی ہے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت نے اس مسئلے کو جنگ کی بجائے عالمی سطح پر اجاگر کرکے ان لوگوں کو بھی کشمیر کاز کی حمایت کرنے پر قائل کرلیا ہے جن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ بھارت کیخلاف کوئی بات کرینگے یا کشمیریوں کے حق میں کلمۂ خیر کہیں گے۔ ساٹھ سال بعد اس مسئلے پر سلامتی کونسل کا اجلاس حکومت کی خارجہ پالیسی کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان نے اب تک جن عالمی حکومتوں اور لیڈروں سے رابطہ کیا ہے‘ ان پر یہی واضح کیا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کا پرامن حل چاہتا ہے‘ ورنہ بھارت نے اپنی طرف سے کرۂ ارض کو تباہی کی طرف دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وزیراعظم عمران خان جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک جارہے ہیں‘ اب قوم کی نگاہیں ان پر مرکوز ہیں۔ امید ہے کہ وہ جنرل اسمبلی میں کشمیریوں اور کشمیر کاز پر پاکستان کی وکالت کا حق ادا کرینگے۔ انہیں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پچھلے سات ہفتوں سے عالمی سطح پر زبردست سفارتی جنگ لڑی ہے اور انکی اس محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فضا سازگار ہوچکی ہے۔