ملکی معیشت کی ضروریات کیمطابق خود اصلاحاتی اقدامات کئے جائیں
آئی ایم ایف کے وفد کی وزیر قانون عمر ایوب کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے چند معاشی اشاریوں میں اچھی پیش رفت کی ہے‘ البتہ معاشی ترقی کیلئے سخت فیصلے ضروری ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق مانیٹری پالیسی کے ذریعے مہنگائی کو کنٹرول کیا جارہا ہے اور آئندہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی متوقع ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مرکزی بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے۔
حکومت نے تقریباً تیرہ ماہ قبل اقتدار سنبھالا تو معیشت کی حالت سخت ابتر تھی‘ خزانہ خالی تھا اور اندرونی و بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا تھا۔ نئی حکومت کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا‘ اتنے بڑے چیلنج کے مقابلے میں مضبوط سے مضبوط حکومت کے اعصاب بھی جواب دے جاتے۔ لیکن خوش قسمتی سے تمام مقتدر ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں دوست ممالک سے رابطے کئے‘ مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اس مہم میں شریک ہو گئے۔ اعلیٰ عدالتوں اور نیب نے کرپٹ عناصر کیخلاف بلارو رعایت کارروائی شروع کر دی‘ ان تمام کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ وزیراعظم نے اپنی معاشی ٹیم تبدیل کر دی‘ نئی ٹیم عالمی سطح کے ماہرین مالیات پر مشتمل تھی۔ ان اقدامات نے نئی حکومت کی ساکھ میں اضافہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے دل میں پاکستان کیلئے نرم گوشہ پیدا کیا۔ جیسا کہ عالمی مالیاتی اداروں کا وتیرہ ہے کہ وہ قرضہ دیتے ہوئے ترکیب استعمال کا پرچہ بھی ساتھ تھما دیتے ہیں اور ساتھ ہی ’’مسلسل نظر‘‘ رکھنے کیلئے سہ ماہی ’’امتحانات‘‘ کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ آئی ایم ایف مشن کا حالیہ دورہ بھی ارنیستو کی سربراہی میں اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ بظاہر اعلامیہ میں حوصلہ افزاء باتیں کہی گئی ہیں‘ لیکن حکومت آئی ایم ایف کو اپنی کمزوری بنانے کی بجائے ملکی معیشت کی ضروریات کے مطابق اصلاحاتی اقدامات اٹھائے اور کوشش کی جائے کہ عوام پر یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ کا بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نظام کو مؤِثر بنایا جائے‘ درآمدات میں کمی کی جائے اور برآمدات میں اضافے پر پورا زور صرف کر دیا جائے۔ امید ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے مشوروں کو قبول اور احکام کو مسترد کرنے کی پالیسی اپنالی تو ایک دو سالوں تک معیشت سنبھل جائیگی۔