اسلام اور اصلاحِ عبادات
مکہء مکرّمہ کی آبادی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے مبارک وجود کی وجہ سے شروع ہوئی۔ اللہ کے یہ پیغمبر دعوت توحید کے علمبردار تھے ۔ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی اولاد و احناف بھی ایک مدّت تک دین حنیف پر کاربند رہے۔ لیکن ایک شخص عمرو بن لحی الخزاعی سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوگیا۔ عمروبن لحی خانہ کعبہ کا متولی تھا، اسے سنگین نوعیت کا کوئی مرض لاحق ہوگیا ۔ کسی نے اسے بتایا کہ ملک شام میں بلقاء کے مقام پر گرم پانی کا ایک چشمہ ہے۔ اگر تم اس کے پانی سے غسل کروگے، تو صحت یاب ہو جائو گے۔ وہ بلقاء پہنچا، غسل کیا اور صحت یاب ہوگیا۔ اس نے وہاں کے باسیوں کودیکھا کہ وہ بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ اس نے استفسار کیا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو، انہوں نے بتایا کہ ہم ان کے ذریعہ سے بارش طلب کرتے ہیں اور ان کے ذریعے دشمن پر فتح حاصل کرتے ہیں۔ اس نے کہا مجھے بھی ان بتوں میں سے چند ایک بت دے دو، انہوں نے اس کو چند بت دے دئیے وہ ان کو لے کر مکہ واپس آ گیا، اور انہیں خانہ کعبہ کے اردگرد نصب کر دیا، بقول ابن خلدون یہیں سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا، عمرو نے بت پرستی کے علاوہ بھی بہت سی نئی رسومات کا آغاز کیا اور عربوں نے انہیں مذہبی شعار سمجھ کر اختیار کرنا شروع کر دیا۔ بت پرستی کی یہ وباء اس شدت سے پھیلی کہ ہر قبیلے نے اپنا الگ الگ خدا بنا لیا۔ یہاں تک کہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب کردئیے گئے، اور اس کی وجہ یہ تھی عرب کے سارے قبائل کعبہ کا حج کرنے کے لئے ایسا کرتے تھے۔ اس لئے قریش نے ان تمام قبائل کے معبودوں کے بت یہاں یکجا کردئیے تھے تاکہ کسی قبیلہ کا آدمی بھی حج کرنے کی نیت سے مکہ میں آئے تو اپنے معبود کے بت کو یہاں دیکھ کر اس کی عقیدت میں اور اضافہ ہو اور اسے قریش کی سیادت کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہ ہو، کفّا ر و مشرکین کے ساتھ عرب میں یہودیوں اور نصاریٰ کی بھی ایک تعداد موجود تھی، لیکن یہ مذاہب بھی افراط وتقریظ کا شکار ہو چکے تھے۔
یہود اپنی بدعملی کے سبب بدنام ہو چکے تھے، جادو، ٹونہ اور عملیات کے توہمات میں گرفتار ہو چکے تھے۔ ان میں خدا پرستی ایثار اور روحانی خلوص نام کو بھی نہیں تھا۔ صرف ہفتہ کے دن کی تعظیم کو بڑا مذہبی شعار گردانتے تھے۔ عیسائیوں نے توحید خالص کو چھوڑ کر حضرت عیسٰی، حضرت مریم اور مسیحی اکابرین کے مجسمے اور تصویریں پوجنا شروع کر دی تھیں، اور رہبانیت کو اپنا مذہبی شعار بنا لیا تھا۔ ’’یہود کا فسق دین میںکمی اور پستی کرنا اور نصاریٰ کا فسق دین میں زیادتی اور غلو تھا‘‘۔ ایسے میں اسلام توحید، اعتدال اور توازن کا پیغام لے کر آیا۔
سروری زیبا فقط اس ذاتِ ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری