اتوار ‘ 22 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 22ستمبر 2019 ء
پشاور چڑیا گھر سے فرار ہونے والا بھالو کا بچہ 3 دن بعد بازیاب
شکرہے یہ معصوم بھالو کسی انسان کے ہتھے نہیں چڑھ گیا۔ وہ یا تو اسے مار ڈالتا یا پھر کسی مداری کے ہاتھ فروخت کر کے دام کھرے کرتا جو اس معصوم بھالو کو مار مار کر سہ ھاتا کہ کس طرح ڈگڈی کے اشارے پر ناچنا ہے۔ اس وقت بھی ملک بھر میں سینکڑوں ریچھ سمیت کئی اور جانور مداریوں کے پاس ناک میں نکیل ڈالے غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جن پر محکمہ وائلڈ لائف والوں کو ایکشن لینا چاہیے۔ چند سکوں کی خاطر یہ مداری ’’ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا‘‘ کی لے پر ان سے روٹی کماتے ہیں اور انہیں بھوکا پیاسا رکھتے ہیں۔ چڑیا گھر میں چلیں انہیں کم از کم سر چھپانے کو چھت اور کھانے کو روٹی تو مل ہی جاتی ہے۔ ریچھ بے شک خطرناک درندہ ہے۔ قوی الجثہ ہونے کی وجہ سے اسے دیکھ کر ہی ڈر لگتا ہے۔ اسی لئے اسکا شکار بھی کیا جاتا ہے۔ اسے خونخواہ کتوں سے لڑوایا بھی جاتا ہے۔ یہ بھی ظلم کی ہی ایک شکل ہے۔ جنگلی حیات کی بقا اور تحفظ انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں تو ریچھ، چیتے، بندر، شیر ہاتھی کب کے ختم ہو چکے کبھی کبھار کوئی جانور کہیں مداری کے ساتھ نظر آ جاتا ہے۔ ورنہ صرف چڑیا گھر میں ہی نظر آتے ہیں۔ ہم جیسے انسان نما درندوں نے ان سب کا خاتمہ کر دیا ہے جو بچ گئے ہیں‘ ان پر تو رحم کیا جائے۔
٭…٭…٭
15 فیصد مجھے دیکر باقی نیب رکھ لے‘ خورشید شاہ
اتنی فیاضی اتنی فراخدلانہ پیشکش پر تو نیب والوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ وہ بھی تو یہی اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ خفیہ جائیدادوں اور اکاؤنٹس کی اطلاع دینے والے کو برآمد شدہ حال کا 15فیصد انعام دیا جائے گا۔ آخر اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ یہی سمجھ لیں خورشید شاہ نے خود اپنی مخبری کی ہے۔ 500 ارب کوئی معمول رقم نہیں 15 فی صد بھی واپس مل گئے تو بھی خورشید شاہ کیلئے گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔ جان کی بھی خلاصی ہو گی۔ دوسروں کے نام پر خریدی یہ ساری جائیدادیں اور اکاؤنٹس اب ان کے کسی کام کی نہیں رہیں۔ ابھی انکے فرنٹ منیوں اور بیٹیوں نے جو ضمانتیں پیشگی کرائی ہیں وہ ایسے ہی تو نہیں کرائیں۔ اسی طرح گرفتار لیاقت قائم خانی کوہی دیکھ لیں وہ گڑ باغیچہ جیسی غریب بستی کا بندہ جسکی سالانہ آمدنی 15 لاکھ ہے۔ 3 کروڑ کے غبن میں پکڑا گیا تو 10 ارب روپے کی مالیت کے اثاثوں کا کھاتہ سامنے آیا جس میں سونا چاندی ہیرے جواہرات، مارکیٹ، باغات، بنگلے اور پلاٹس شامل ہیں اسی طرح کئی اور بھی سامنے آ رہے ہیں۔ فریال تالپور کو جس جیالے نے بم پروف گاڑی تحفے میں دی تھی وہ بھی نیب کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ موصوف میونسپل کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ نجانے اتنی قیمتی گاڑی انہوں نے کہاں سے لی۔ خدا جانے اب اور کون کون نیب کے ریڈار پر ہے۔ ویسے اگر ان سب سے یہ اربوں کھربوں کی برآمدگیاں قومی خزانے میں جمع ہو جائیں تو امید ہے ہمارا اگلا بجٹ خسارے کا نہیں منافع والا ہو گا اور خزانہ بھی خوشی سے پھول نہ سمائے گا۔
٭…٭…٭
اسلام آباد میں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نہ ہونے کا انکشاف
ارے بابا اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ اسلام آباد وفاقی دارالحکومت ہے سہراب گوٹھ نہیں جہاں قدم قدم یہ منشیات بکتی ہیں اس لئے یہاں اس قسم کی لیبارٹری کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہو گی۔ ویسے ہمارے وزیر انسداد منشیات کی زبان پر کیا کسی کو اعتبار نہیں ان کا فرمایا کسی لیبارٹری کی ٹیسٹ رپورٹ سے زیادہ معتبر ہے کیونکہ وہ وزیر ہیں۔ اب بھلا کوئی لیبارٹری وزیر کے برابر تو نہیں ہو سکتی ناں۔ موصوف اسلام آباد کے سکولوں کالجز اور یونیورسٹیوں کے 80 فیصد طلبہ و طالبات کو نشئی قرار دے چکے ہیں۔ ان کے اس بیان سے ان والدین پر کیا گزری ہو گی جن کے بچے تعلیم حاصل کرنے سکول جاتے ہیں اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نشہ بھی کرتے ہیں۔اب اس خبر سے ان کی تسلی ہو گئی ہے کہ یہ وزیر منشیات کی ازخود تحقیقاتی خبر تھی کسی مستند ٹیسٹنگ لیبارٹری کی رپورٹ نہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں اسلام آباد میں جتنے منشیات سپلائی کے اڈے ہیں ان میں منشیات خیبر پی کے سے آتی ہیں۔ وزیر انسداد منشیات کو اس طرف بھی توجہ دینا چاہیے منشیات کی سمگلنگ بند کرانی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور خبر بھی سامنے آئی ہے کہ ملک میں کتوں کے کاٹے کی تشخص کی یعنی لیبارٹری ٹیسٹ کی بھی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ روزانہ درجنوں افراد خاص طور پر بچے کتے کے کاٹنے کا شکار ہوتے ہیں انکے علاج کی ویکسین چھوٹے سے لاڑکانہ ہسپتال میں کیا ملک کے بڑے شہروں میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ اب حکومت یا تو کتے مکائے یعنی مارے یا پھر ویکسیئن پورے ملک میں فراہم کرے ورنہ کتے کے کاٹنے کے مریض اسی طرح تڑپ کر مرتے رہیں گے۔
٭…٭…٭
ڈیل کے لئے بات چیت کرنے والے پارٹی رہنماؤں سے نوازشریف ناراض
ایک طرف تو حکومت کے غیر اعلانیہ ترجمان شیخ رشید روزانہ میڈیا بیان دے رہے ہیں کہ جلد معاملات طے ہونے والے ہیں۔ دوسری طرف کی حالت کہ میاں نوازشریف حکومت سے کسی شے کی ڈھیل یا ڈیل کے مخالف بتائے جا رہے ہیں۔ اصل بات کیا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ خود وزیراعظم بھی کسی ڈیل یا ڈھیل کے خلاف ہیں اور سختی سے اسکی تردید کرتے آ رہے ہیں تو پھر ڈیل کس سے ہو گی ڈھیل کس کو ملے گی۔ اب یہ شیخ جی کی باتیں شیخ جی ہی جانیں۔ وہ تو ایک سال سے یہ بھی کہتے آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں فاروڈ بلاک بن رہا ہے۔ مگر دور دور تک فی الحال اس کا کوئی امکان نہیں۔ میاں نوازشریف اس دو سال کے دوران سمجھ گئے ہیں کہ…؎
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد
سرخرو ہوتا ہے انسان ٹھوکریں کھانے کے بعد
اس لئے اب کی بار وہ استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، مگر ان کے چاہنے والے ان سے پیار کرنے والے انہیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتے۔ان کی کوشش ہے کہ کوئی مناسب راہ نکل آئے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہرہونے تک‘‘۔میاں جی تو فی الحال قانون کی رعایت پر ہی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب اس معرکہ میں کون سرخرو ہوتا ہے۔ سخت گیر مؤقف رکھنے والے یا معتدل مؤقف والے۔