نواز شریف کا ’’این آ ر او ‘‘ لینے سے انکار
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’جنگ‘‘ جاری ہے وہاں مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کو ’’این آر او‘‘ لینے پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں جن میں تاحال کوئی کامیابی نہیں ہوئی چونکہ یہ کوششیں حکومت سے ’’بالاتر‘‘ ہو رہی ہیں لہذا اس پر حکومت کی طرف سے بار بار ردعمل آرہا ہے وزیر اعظم عمران خان اکثر و بیشتر ’’این آر او ‘‘ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اگلے روز طورخم میں پاک افغان بارڈر 24گھنٹے کھولنے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو انہوں نے وہاں بھی کہا کہ ’’ اپوزیشن کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے وہ این آراوؤ مانگ رہی ہے ، اپوزیشن کا پہلے دن سے یہی رویہ ہے کہ میں کسی طرح دبا ئومیں آجائو ں لیکن میں کسی کے دبائومیں نہیں آئوں گا ۔ قوم کو واضح کر دینا چاہتا ہوں جو مرضی ہوجائے کسی کو این آراو نہیں دوں گا ‘‘ دوسری طرف جہاں اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دھڑلے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ بتائیں ان سے کون این آر او مانگ رہا ہے ؟پھر اس پر اپوزیشن پھبتی کستی ہے کہ ان کے پاس این آ او دینے کا اختیار ہی نہیں لیکن ان سیاسی طعنوں اور پوائنٹ سکورنگ کے باوجود یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ملک میں کچھ ’’قوتیں ‘‘ میاں نواز شریف کو این آ ر او کے ذریعے بیرون ملک جانے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کوئی شرط قبول کرتے نظر نہیں آرہے پاکستان کے ’’مقتدر ‘‘ حلقوں کا میاں نواز شریف سے ’’رابطہ ‘ ‘ ایک اہم ’’شخصیت ‘‘ کے بارے میں بتایا گیا ہے اس کی میاں نواز شریف سے پچھلے ایک سال کے دوران 4 ’’بے نتیجہ ‘‘ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ ہر ہفتے کوٹ لکھ پت جیل میں میاں نواز شریف سے ملاقات ہوتی ہے۔ حکومت نے میاں نواز شریف سے مسلم لیگی رہنمائوں کی ملاقات پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن حکومت کی جانب سے میاں شہباز شریف ، خواجہ آصف اور احسن اقبال کو میاں نواز شریف سے اکھٹے ملاقات کی خصوصی اجازت دینے سے سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہے کہ وہ کون سا اہم ایشو ہے جس پر بات کرنے کیلئے حکومت نے ’’خاص مہربانی‘‘ کی۔
موجودہ حکومت تو شریف خاندان کو دیوار میں ’’چن ‘‘ دینا چاہتی ہے‘ اس نے میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو گرفتار کر کے ان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک سرکردہ رہنما نے بتایا ہے کہ میاں نواز شریف این آ ر او لینے کیلئے تیار نہیں میاں محمد نواز شریف نے ’’ڈیل ‘‘ کیلئے بات چیت کرنیوالے پارٹی رہنمائوں پر شدید ’’ناراضی‘‘ کا اظہا کیا ہے اور کہا ہے کہ میری’’ رہائی ‘‘ کے لئے بات کرنے والوں کو میرے’’ مصائب اور تکالیف ‘‘ کی فکر نہیں کرنی چاہیے میری حکومت ختم کر دی گئی مجھے ناحق جیل میں ڈال دیا گیا میں پچھلے ایک سال سے جیل کاٹ رہا ہوں اور دبائو ڈالنے کیلئے میری بیٹی مریم نواز کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا ۔ میں اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو کھو چکا ہوں میری زبان پر کبھی کوئی شکوہ شکایت نہیں آئی لہذا میری رہائی کی بجائے پارٹی کو قائم رکھنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ میاں نواز شریف نے ملاقات کیلئے آنیوالے رہنمائوں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے ’’قومی حکومت قبول ہے اور نہ ہی اس بارے میں پارٹی کا کوئی لیڈر کسی بھی شخص یا ادارے سے بات کرے ‘موجودہ حکومت کو اپنی نالائقیوں کے ہاتھوں ڈوبنے دیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کا اہم اجلاس بھی میاں شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوچکاہے جس میں مولانا فضل الرحمنٰ کی کال پر ہونیوالے ’’ اسلام آباد آزادی مارچ ‘‘ میں مسلم لیگ (ن) کی شرکت بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ میاں نواز شریف نے ہدایت کی ہے کہ اسلام آباد آزادی مارچ کے حوالے مولانا فضل الرحمنٰ سے تفصیلات معلوم کی جا رہی ہیں‘ اس میں مسلم لیگ (ن) اپنا حصہ ڈالے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں آزادی مارچ میں شرکت کی باضابطہ طور پر منظوری حاصل کر لی جائیگی۔ پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا انعقاد ’’اتمام حجت ‘ کے طور پر کیا جا رہا ہے ‘ ۔ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کو مولانا فضل الرحمنٰ کے ’’مارچ اور دھرنا‘‘ دونوں شرکت کا واضح پیغام دے دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا تھا بعد ازاں پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلا س طلب کر لیا گیا جس کے ارکان کی تعداد سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے زیادہ ہے یہ فورم بھی میاں نواز شریف کی ’’خواہش ‘‘ کے برعکس کوئی فیصلہ نہیں کریگا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ سے ملاقات میں اسلام آباد آزادی مارچ میں شرکت کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے نیب کی جانب سے گرفتاریوں اور گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے خلاف قومی اسمبلی کے اجلاس میں شدید احتجاج کیا‘ اجلاس میں بازئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شرکت کی۔ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی جانب سے کشمیر سے متعلق اپوزیشن پر عائد کئے گئے الزام کا جواب نہ دینے پر سپیکر ڈائس کا ’’گھیرائو ‘‘ کر لیا اس دوران ڈپٹی سپیکر اور احسن اقبال کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ارکان کو فلور نہ دینے اپوزیشن نے احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ کر دیا بعد ازاں اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا۔ اپوزیشن نے گرفتار کئے گئے رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کیخلاف پارلیمنٹ ہائوس باہر بھی احتجاجی کیمپ بھی لگایا گیا ہے، احتجاجی کیمپ میں نواز شریف، آصف علی زرداری، رانا ثنااللہ، اور شاہد خاقان عباسی کی تصاویر رکھی گئیں، کیمپ میں نواز شریف کی تصویر کے ساتھ قیدی برائے سیاسی تاوان اور بے گناہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرو کے بینر آو یزاں کئے جبکہ سپیکر قومی اسمبلی گرفتار ارکان کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر سکتے وہ ’’بے بسی‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو سپیکر کیلئے پارلیمنٹ میں ’’امن ‘‘ قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔