جرمنی میں اردو کی صورتحال
کچھ دن پہلے مجھے حیدر قریشی صاحب کا مقالہ بہ عنوان "جرمنی میں اردو کی بقا اور سماجی اور ثقافتی حیثیت" پڑھنے کو مال جو 22 فروری 2019ء روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا تھا۔ مطالعے کے دوران مجھے مذکور مقالہ نگار کی مایوس کن اور سیاہ منظر کشی پر حیرت ہوئی کہ پڑھتے وقت میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ کیا وہ اسی جرمنی کی بات کر رہے ہیں جس میں میں بھی رہتا ہوں؟اگرچہ اس مقالے کو چھپے ہوئے کچھ عرصہ ہو چکا ہے، پھر بھی مجھے احساس ہوا کہ یہ بیان تصحیح و ترمیم کا اشد متقاضی ہے۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ساوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے اردو لیکچرار کی حیثیت سے میں ایسے بے بنیاد مغالطوں کی تردید کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور اتنی گراں اور سنگین غلط فہمیوں کو اپنے ہائیڈل برگ میں تجربات کے اساس پر قارئین کے ذہنوں سے دور کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن اب ہم غور سے قریشی صاحب کے مقالے کا مطالعہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کن کن باتوں سے ہمیں اختالف ہے۔ قریشی صاحب لکھتے ہیں:
"جرمنی کی بعض یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ تاثر گمراہ کن ہے۔ بعض یونیورسٹیوں کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے تحت جنوبی ایشیا کی زبانوں کی بالکل ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔ عام طور پر اس میں آٹھ دس طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔ افسوس ان کلاسز میں بھی پاکستانیوں کے بچے شامل نہیں ہوتے۔ )۔۔۔( ان آٹھ دس طلبہ کو بول چال میں تھوڑی مہارت کے ساتھ ہلکا پھلکا پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔"اس چھوٹے سے اقتباس میں کم از کم تین سنگین مغالطے ہیں جن کو میں آگے یکے بعد دیگرے دور کرنا چاہوں گا۔ اول مسئلہ یہ ہے کہ جرمنی میں اردو کی صورت حال کو مِد نظر رکھتے ہوئے دو باتوں میں تمیز کرنا نا گزیراور انتہائی ضروری ہے جن کو قریشی صاحب نے گھول کر ایک ہی بنا دی ہے۔ اسی غلط فہمی کی بنیاد پر ان کے باقی سارے مغالطے پروان چڑھتے ہیں۔ جرمنی میں اردو بطور مادری زبان اور بطور غیر ملکی زبان میں فرق کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔اب قریشی صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستانی نژاد نوجوانوں کو اردو سے کوئی غرض نہیں، اس لیے وہ جنوبی ایشیا سے متعلق کوئی مضمون نہیں پڑھتے اور اردو کلاسز میں داخلہ ے۔ جبکہ یہ بیان کم از کم ہائیڈل برگ کے لیے قطعا بے بنیاد ہے۔ ہماری کلاسز میں پاکستانی نژاد طلبہ کی بہت بڑی تعداد بے شک نہ ہو لیکن ہر سال چند ایسے طلبہ ضرور داخلہ لیتے ہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔ لہذا ایسے بیان کی تصدیق ہر گز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان ی نژاد نوجوانوں کو اردو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس بیانیے سے وابستہ قریشی صاحب کی دوسری اور زیادہ حیرت انگیز غلط فہمی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اردو جرمن یونیورسٹیوں میں اولین طور پر پہلی زبان کی حیثیت سے نہیں پڑھائی جاتی۔ غرضیکہ مادری زبان بولنے والوں کو اردو کی تعلیم دینے کا مقصد ہی نہیں ہوتا۔ بے شک ہمیشہ چند ایسے بھی طلبہ ہوتے ہیں جنہیں اردو بول چال کی حد تک آتی ہے اور جو اس زبان میں زیادہ مہارت حاصل کرنے کے لیے یہ مضمون پڑھتے ہیں۔ اسکے باوجود کلاسز اولین طور پر ایسے طلبہ کے لیے ہوتی ہیں جن کا تعلق کسی اور زبان سے ہے اور جو اردو غیر ملکی زبان کے طور پر سیکھ رہے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو قریشی صاحب کا کہنا کہ ان کلاسز میں صرف "ہلکا پھلکا لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے"اپنے ہدف سے ہٹے ہوئے تیر کے برابرہے۔ بھال کیوں؟بے شک ابتدائی کالسز کسی پاکستانی کی نظر میں جس نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی ہو ہلکی پھلکی ہی لگیں گی۔ الف بے سکھائی جاتی ہے، یعنی لکھنا پڑھنا وغیرہ۔ لیکن ملاحظہ فرمائیے ، یہ طلبہ پاکستانی نہیں ہیں، جرمن یا چند پاکستانی نژاد نوجوان ہیں جو جرمنی میں ہی پلے بڑھے ہوتے ہیں۔ ان کو نستعلیق میں لکھنا کہاں سے آ سکتا تھا ؟ ان کے لیے عربی رسم الخط سیکھنا "ہلکا " سیکھنا نہیں بلکہ بڑی محنت کی بات ہے۔ جو بھی شخص پاکستان میں جرمن ادب پڑھنا چاہے تو وہ بھی گوئٹے پڑھنے سے شروع نہیں کریگا بلکہ پہلے زبان کی بنیاد مضبوط بنائے گا۔ ایسی ہی صورت حال جرمن یونیورسٹیوں میں اردو کی بھی ہے۔ اقبال پڑھنے سے پہلے یہاں کے طلبہ کو بڑی محنت کر کے اردو زبان سیکھنی پڑتی ہے تاکہ وہ آگے جا کر ادبی کلاسز میں بھی حصہ لے سکیں۔ اور لیتے بھی ہیں، بلکہ آگے جا کر تحقیقات بھی کرتے ہیں۔اس سے متعلق قریشی صاحب کا ایک اور مغالطہ یہ بھی ہے کہ اردو کی تعلیم جرمنی میں صرف بول چال اور ہلکے پھلکے لکھنے پڑھنے کی حد تک محدود ہے۔ ایسا ہر گز نہیں۔ جب طلبہ پہلے سال میں ابتدائی کالسز میں اردو کی قواعد پر عبور حاصل کر لیتے ہیں اور دوسرے سال میں گفتگو کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں اور آسان متن سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو وہ آگے ادبی کالسز میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ان کو اردو ادب کی پوری تاریخ سے واقف کیا جاتا ہے۔ کبھی کلاسیکی غزل پڑھائی جاتی ہے ، کبھی اردو افسانے کی معاصر روایت کے بارے میں۔اگر خاکسار کو اپنی مثال دینے کی اجازت ہو تو، معزز قارئین، آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ کیا واقعی جرمن یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم صرف بول چال تک محدود ہے کہ نہیں۔ کیوں کہ اس مقالے کے مصنف نے بھی یونیورسٹی میں دس سال لگا کر انہیں کلاسز سے اردو سیکھی۔صرف خاکسار ہی نہیں، بلکہ کرسٹینا اوسٹرہلڈ، ہنس ہارڈر، مونیکا بوم ٹیٹلبخ، لوتھر لوٹسے وغیرہ جیسی ہستیوں نے بھی انہیں کالسز میں پڑھا یا خود ایسی ہلکی پھلکی کلاسز ہائیڈل برگ میں پڑھائیں۔ ان سب نے اپنی تحقیقات سے بلاشبہ واضح کیا کہ انہیں کس حد تک جنوب ایشیائی زبانوں، ادب اور تاریخ پر عبور حاصل ہے۔اور ابھی تو صرف ہائیڈل برگ کے چند ہی نامور شخصیات کا ذکر ہوا۔ اگر باقی جنوب ایشیا سے متعلق شعبوں کا حوالہ دینا چاہتا تو کئی صفحے سیاہ ہو جاتے۔ در حقیقت یونیورسٹیوں کی اردو تعلیم کی بدولت ملک جرمنی اردو کی ایک نئی بستی بسانے کا مستحق ضرور ہے۔ اگر اردو کے مادری زبان بولنے والوں کی وجہ سے نہیں تو نئے سیکھنے والوں کی وجہ سے تو سہی۔ حالانکہ اول الذکر کی بھی کم قدری نہیں کرنی چاہیے۔ ہم ان پاکستانیوں کی بہت قدر کرتے ہیں جنہوں نے جرمنی میں اردو زبان و ادب زندہ رکھا ہے۔لیکن اس موضوع کے لیے ایک علیحدہ مقالہ درکار ہے۔ اس ناچیز کی رائے میں بہتر ہوگا کہ کچھ شائع کرنے سے پہلے سنی سنائی باتوں کی تصدیق کر لی جائے۔ گستاخی معاف۔