مودی کے چاند کا ماتم
پندرہ بیس سال پہلے جب بھارتی ٹی وی ڈرامے اپنی مقبولیت اس حوالے سے حاصل کر رہے تھے کہ ڈراموں کے کردار بے حد امیر دکھائے جاتے تھے۔ دوست احباب ایک دوسرے کو کئی کئی سو کروڑ کے تحائف دیتے تھے ۔ اسی طرح کاروباری معاملات میں بھی راتوں رات سینکڑوں کروڑ کے نقصان یا فائدے کی باتیں ہوتی تھیں تو ایسی باتوں کا بڑا چرچا ہوتا تھا۔ بھارت رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے ۔ اسی حوالے سے اس کی معیشت بھی پھیلی ہوئی ہے اور اس کی وسعت کو دیکھ کر کسی بھی چھوٹے ملک کے لوگ چھوٹی معیشت کی وجہ سے متاثرہو سکتے ہیں ۔ اس ہفتے ایک خبر کا دُنیا بھر میںبہت چرچا ہوا کہ بھارت کے سائنسدانوں نے چاند پر خلائی سیارہ اتارنے میں دوبارہ ناکامی کا سامنا کیا ہے اس تجربے کے ناکام ہونے سے 900کروڑ ڈالر ضائع ہو گئے ہیں ۔ چاند پر تحقیق کے لئے بھارت نے جو خلائی سیارہ بھیجا ، اسے چاند ، ریان، ٹو کا نام دیا گیا ۔ کئی سال پہلے بھی بھاری اخراجات کر کے بھارتی سائنسدانوں نے اپنا پہلاخلائی سیارہ چاند پر بھیجا تھا وہ مشن بُری طرح ناکام ہو گیا تا ہم سائنسدانوں نے حکومت سے یہ کہہ کر 900کروڑ کا بجٹ منظور کر وایا کہ پہلے ناکام تجربے سے حاصل ہونے والے نتائج بہتر بنا کر اس بار کامیابی حاصل کر لی جائیگی ۔ مودی سرکار نے اتنی بڑی رقم محض ایڈونچر کے لئے دے دی اور نتیجہ پھر بھی ناکامی کے سوا کچھ نہ نکلا ۔ اس ناکام تجربے پر دُنیا بھر میں یہ بحث ہونے لگی ہے کہ جدید سائنسی تحقیق میں دوسرے امیر اور بڑے ملکوں کی دیکھا دیکھی بھارت جیسے غریب ملک کے لئے کیونکر جائز اور مناسب ہو سکتا ہے ۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ بھارت جیسا غریب اور پسماندہ ملک خلائی تحقیق کی عیاشی میں شامل ہونے میں حق بجانب ہے؟ آبادی کے لحاظ سے بھارت دُنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے ۔ اسکے 70فیصد عوام غربت کا شکار ہیں حالت یہ ہے کہ کروڑوں لوگوں کو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ۔ بھارت میں غربت کا اندازاہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ممبئی ، کلکتہ اور دیگر ترقی یافتہ اور امیر شہروں میں جہاں ایک طرف کئی کئی ہزار کروڑ کے بینک بیلنس اور بڑی بڑی فیکٹریوں کے مالکان رہائش پذیر ہیں ، وہیں پر کروڑوں لوگ مستقل طور پر فُٹ پاتھ پر رات بسر کرتے ہیں ۔ اسی طرح بہت بڑی تعدادمیں چھ سات فُٹ چوڑی جھونپڑیوں میں لوگ بیوی بچوں سمیت رہائش پذیر ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ دس دس بیس بیس ہزار جھونپڑیاں ایک ایک علاقے میں موجو د ہیں ۔ مودی سرکار جنگی جنون کی تسکین اور چاند یا تراکیلئے بیشتر وسائل کو برباد کرتی رہتی ہے۔ اس رقم سے غربت میں کمی لانے اور لوگوں کو پہلے سے زیادہ سہولتیں مہیا کرنے کا کام ہو سکتا ہے۔ اپنے دور اقتدار میں مودی سرکار نے جنگی جنون کے تحت مختلف ملکوں سے اسلحہ، طیارے اور ہیلی کاپٹر ز کی خریداری کے معاہدے کئے ہیں۔ پہلے جنگی ہتھیاروں کے حوالے سے روس اور اسرائیل پر ہی انحصار کیا جاتا تھا۔ لیکن مودی نے امریکہ کے صدر ٹرمپ سے تعلقات بڑھاتے ہوئے کئی معاہدے کئے ہیں۔ فرانس ، جرمنی اور دیگر ملکوں سے بھی جنگی سامان کی خریداری کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بیشتر وسائل ان مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے خرچ کئے جائیں گے تو بھارتی عوام کو سہولتیں کی فراہمی کیسے ممکن ہو گی ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مودی سرکار کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتیں طاقتور نہیں ہیں۔ بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں مودی کو پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ جب حالات ایسے ہوں گے کہ مودی سرکار پر دبائو ڈالنے کیلئے مضبوط اپوزیشن نہیںتو پھر من مانی کرنے سے مودی سرکارکو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایسا ریکارڈ تیار ہو رہا ہے کہ کشمیریوں کی نسل کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ ساری دُنیا میں بھارت کی جمہوریت کے دعوے اور لبرل ہونے کا پراپیگنڈہ ختم ہو چکا ہے ۔ بھارت کا اصل روپ اور حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ یہ وہ نقصان ہے جس کی وجہ سے کم از کم موجودہ صدی میں بھارت کا امیج بحال نہیں ہو سکے گا۔ بھارتی اپوزیشن پارٹیاں چاہتے ہوئے بھی مودی کو کشمیریوں کی نسل کشی کے اقدامات سے باز نہیں رکھ سکی ہیں۔ وہ بے بسی سے اس المیے کو دیکھ رہی ہیں۔ اس ماحول میں حکومت مخالف سیاسی اور سماجی قوتیں کس طرح جنونی مودی کو 900کروڑ کے درجنوں پراجیکٹس سے باز رہنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔