ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا اعلان اور حقیقت
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ روز تحریک انصاف کی سربراہی چھوڑنے کا اعلان کیا جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی جان چھوٹ گئی ہے وہ غلطی پرہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کو تب سے جانتا ہوں جب وہ جھنگ سے لاہور آ کر قدم جما رہے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی لا کالج کی لیکچر شپ سے شادمان کالونی کے بنگلہ نمبر 207 اور جامعہ مسجد رحمانیہ میں درس قرآن کے سلسلے میں اور ادارہ منہاج القرآن کی تشکیل تک پی ٹی آئی کے پروگرام فہم القرآن سے اتفاق مسجد کی جمعہ کی خطابت تک، چھانگا مانگا سیاست سے اختلاف سے لیکر 1989 میں موچی دروازہ میں پاکستان عوامی تحریک کی تشکیل کے اعلان تک کا ایک ایک لمحہ میرے سامنے ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور شریف فیملی کے مابین انتہائی محبت اور انتہائی نفر ت کا رشتہ اپریل 1990 سے میاں صاحب کے دور حکوم میں ڈاکٹر صاحب کے گھر پر فائرنگ سے لے کر ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ پر پنجاب پولیس کے حملے اور کئی بے گناہ افراد کے قتل اور متعدد کے زخمی ہونے تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی کی دہائی میں جب دونوں میں تعلقات مثالی تھے تو مجید نظامی نے ڈاکٹر صاحب کے پیرومرشد حضرت طاہر علاالدین کے ہر دورہ اہور پر تاکید کر رکھی تھی کہ میں خود فوٹو گرافر کو لے کر لاہور میں ان کی مصروفیات کو کور کیا کروں۔ ڈاکٹر صاحب نے رات گئے اپنے گھر پر فائرنگ کے دوران صرف جناب مجید نظامی کو فون کر کے صورت حال سے آگاہ کیا تھا۔ اُس دور میں جب میاں صاحب پنجاب میں برسراقتدار تھے تو پاکستان اور خاص طور پر لاہور سے وابستہ پرنٹ میڈیا کے بعض حلقوں نے ڈاکٹر صاحب کو آنے بہانے رگڑا لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحب کا مؤقف دینے والے جریدہ ’’انکشاف‘‘ لاہور تھا۔ جن میں ’’چار کا ٹولہ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب کو مبینہ طور پر کسی دباؤ کے نتیجے میں چھوڑ جانے والے ادارہ منہاج القرآن کے اہم ساتھیوں خلیل الرحمان قادری، مفتی محمد خان قادری، رانا جاوید القادری اور محمد عتیق مجدوی کے حوالے سے طویل فیچر او ڈاکٹر صاحب کا انٹرویو شائع ہونے پر راقم الحروف کو بہت کچھ سہنا پڑا تھا۔ انہی دنوں ’’ڈاکٹر طاہرالقادری میدان کا رزار میں کے عنوان سے میری تالیف کردہ کتاب کی ہزاروں کاپیاں ایک ہفتے کے اندر فروخت ہونے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا دائرواثر کتنا پھیل چکا تھا۔ اب تو صورت حال اور بھی مختلف ہے۔ پاکستان میں تھے تو موچی دروازے سے لے کر مینار پاکستان کے وسیع و عریض میدان تک سیاسی اور دینی طاقت کے بھرپور اور منظم مظاہرے کرتے رہے۔ دھرنوں کا زمانہ بھی شاہد ہے بین الاقوامی سطح پر کام شروع کیا تو جون 1988ء کی لندن میں پہلی بین الاقوامی منہاج القران کانفرنس سے لے کر آج دنیا کے بیشتر اہم ممالک میں منہاج القرآن کے لائبریریوں کے قیام تک ایک بڑا مؤثر عالمی نیٹ ورک قائم کر دیا۔ بے شکار خوبیوں کے ساتھ ان کی بعض باتوں کو کمزور پہلو سے بھی تعمیر کیا جاتا ہے۔ مثلاً وہ پبلسٹی کو اہمیت دیتے ہیں اسے ان کی خودنمائی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اسی پبلسٹی کو انہوں نے جدید دور کی ٹیکنالوجی کے استعمال سے دینی کام کو عام کرنے کے لئے استعمال کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ان سے ایک بات اور منسوب ہے کہ وہ دوستوں سے زیادہ اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھتے ہیں۔سو جی ایم ملک کو چھوڑ کر ان کی ابتدائی ٹیم کے بہت کم لوگ آج ان کی ٹیم میں نظر آتے ہیں۔ کینیڈا میں ان کے قیام اور شہریت کو بھی ہدف تنقید بنایاجاتا ہے مگر پاکستان میں جس طرح مختلف طاقتیں مخالفین کو دبانے کے لئے موجود ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے بڑے کام کرنے اور مثالیت پسندی کے ساتھ آگے بڑھنے کا خواہشمند کوئی شخص زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتا تھا کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح تنظیم سازی، تعلیمی اداروں کا سکولوں سے یونیورسٹی تک کا نیٹ ورک، تحقیق و تالیف کا بے پناہ ذخیرہ اور اسکی سیاسی لاقانونیت اور عالمی انتہا پسندی کے مقابل ایک توانا آواز کے روپ میں وہ جس طرح سامنے آئے، کینیڈا میں قیام کئے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہ ہو پاتا۔ ابھی ڈاکٹر صاحب کی عمر صرف 68 برس ہے۔ انہوں نے سیاسی جماعت یعنی پاکستان عوامی تحریک کی سربراہی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت کی سپریم کونسل کے سربراہ ان کی فرزند ڈاکٹر حسن محی الدین قادری ہی ہیں اور اب اختیارات اس سپریم کونسل کے پاس ہیں۔ عوامی تحریک حسب معمول کام کرے گی۔ پاکستان میں انکی آن لائن پریس کانفرنس میں اہم انتظامی عہدیدار بھی، سیکرٹری جنرل خرم نواز، گنڈہ پور، نائب صدر، بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان مرکزی سیکرٹری اطلاعات نورااللہ صدیقی، خصوصی اسٹنٹ جی ایم ملک صوبائی صدور بشارت جسپال، قاضی شفیق الرحمان، راجہ زاہد محمود، میاں ریحان مقبول جواد موجود تھے۔ اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کا اشتیاق الگ تھا۔ کینیڈا میں موجود پاکستان کے مقبول دینی سکالر اور صاحب طرز مقرر مولانا طارق جمیل نے ڈاکٹر صاحب کی پریس کانفرنس کے تین چار روز بعد ملاقات کی اور پہلے کی طرح ان کے کام اور مشن کو سراہا۔ اس پر پس منظر میں کوئی سوچے کہ ڈاکٹر صاحب اب ایک طرف ہو گئے ہیں اور رقیبوں کے لئے میدان کھلا ہے تو یہ سخت بھول ہو گئی۔ گو میرا اب خاصے عرصے سے ان سے رابطہ نہیں لیکن ماضی کے برسوں کے مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اپنی دھن کے پکے اس لیڈر کے بارے میں کوئی حتمی اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا۔