برصغیر عہد پارینہ سے وافر غلہ اور جڑی بوٹیوں کی عمدہ پیداوار کے باعث سونے کی چڑیا کہلایا ہے۔ مغل حکمرانوں کے بعد تاج برطانیہ نے بھی برصغیر میں طویل قیام کی منصوبہ بندی کی۔ پنجاب کی زرخیز زمین کے ساتھ موسموں کی ہم آہنگی سے متاثر ہو کر اصلاحات کی گئیں جس میں آبادی اور رقبے کے تناسب سے اضلاع کا قیام اور نہری نظام کا سلسلہ وسیع تر کرنے کے منصوبے 1871 سے 1881 کے عشرہ میں بنائے گئے جہاں نو اضلاع قائم کئے گئے۔ 1883ءمیں ہی سرہند کینال کی تعمیر سے نابھہ، پٹیالہ اور جنڈ ریاستوں کی وسیع و عریض بنجر زمینوں کو گل و گلزار بنا ڈالا۔ آج ہم جس کالا باغ ڈیم کی تعمیرکا رونا رو رہے ہیں اس قدرتی آبی گزرگاہ کو دریافت 1871ءمیں ایک انگریز ایری گیشن انجینئر مسٹر گار بیٹ Mr Garbedd نے اس وقت کے چیف انجینئر جنرل کروفٹن (Crofton) کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ کالا باغ کے قریب سے دریائے سندھ ایک نہایت تنگ گھاٹی سے گزرتا ہے جس سے قبل دریائے سندھ کا پانی ایک کشادہ وسیع تالاب کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ مقام سطح سمندر سے 796 فٹ بلند ہونے کے باعث بہترین ڈیم کا نمونہ نظر آتا ہے۔ رپورٹ میں مزید تحریر کیا کہ اس کے جنوب کی جانب پتھروں سے آراستہ قدرتی ڈھلوان موجود ہے جسے نہروں میں تبدیل کرنا نہایت آسان ہے۔ یہ مقام دریائے جہلم سے زیادہ بلند ہے۔ اس ڈیم سے شمال مغربی پنجاب کے ایک وسیع علاقے کو سیراب و شاداب کیا جا سکتا ہے۔1881ءمیں ہی ایک اور انگریز ایری گیشن انجینئر میجر جنرل گلیور نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ میں اتنا بڑا آبی ذخیرہ میسر ہے اگر اسے ڈیم کی شکل میں اختیار کریں تو کالا باغ سے لے کر سمندر تک کہیں پانی کی کمی واقع نہیں ہو سکتی مگر علاقہ میں آبادی کم ہونے کے باعث نئی آبادکاری کا عمل بھی انتہائی ضروری ہے لہٰذا تجویز کیا گیا کہ موسم سرما میں یہاں اپنے ریوڑوں کے ساتھ آنے والے پشتون قبائل جو نیک سیرت اور صلح جو فطرت کے حامل ہیں وہ اس علاقے میں زمینیں الاٹ کر کے مستقل آباد کرنے کیلئے حالات سازگار بنائے جائیں تاکہ یہ لوگ ڈیم کی تعمیر میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ حکومت نے میانوالی کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد پنجاب ایری گیشن کے ادارے کو سات لاکھ پچاس ہزار پاﺅنڈ رقم بھی ارسال کر دی۔ 1901ءمیں صوبہ سرحد بنا تو یہ خطہ صوبہ سرحد کے نقشہ میں شامل ہو گیا۔ ابھی ضلع میانوالی آباد ہونے کے عمل سے گزر رہا تھا کہ جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا لہذا تمام اصلاحات پس پشت ڈالتے ہوئے اس پورے خطے کو فوجی علاقہ قرار دیتے ہوئے سپاہیوں کی بھرتی شروع کر دی گئی۔ ایک جنگ عظیم ختم ہونے کے آثار نہ مٹے تھے کہ دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔ بعد ازاں تاج برطانیہ برصغیر سے واپسی پر مجبور نظر آیا تو سب پر یہ حقیقت عیاں تھی کہ کالا باغ ڈیم بننے والا مذکورہ علاقہ مسلم اکثریتی آبادی کا حصہ ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے نئی بننے والی مملکت میں مسلمان عوام اور حکمران ہونگے۔ اس اعلیٰ منصوبہ اس مملکت کے ابتدائی مرحلے میں پاﺅں پر کھڑے ہونے میں مددگار ثابت ہو گا لہٰذا تعمیر میں لیت و لعل کے ذریعے فائلوں میں غرق کر دیا گیا ۔ حضرت قائداعظم کی نگاہ دور اندیشی نے جان لیا تھا کہ ہندو انگریز کی ملی بھگت کے باعث اس منصوبے کو کھٹائی میں ڈالا گیا لہٰذا قیام پاکستان کے بعد میانوالی ہائیڈرل پروجیکٹ کی تعمیر کا فیصلہ فروری 1948ءمیں کر لیا گیا جس کے لئے بجٹ مختص ہو گیا اس وقت ہمارے پاس 60 میگاواٹ بجلی میسر تھی جبکہ نئے منصوبے سے 500 میگاواٹ کے حصول کے علاوہ پورے مغربی کی زراعت کو فروغ دینے کےلئے پانی بھی وافر مقدار میں حاصل کیا جا سکتا تھا۔ قائداعظم پاکستان کو خطہ میں زراعت کے ذریعے خوراک و اجناس کا مرکز و محور بنانے کے ساتھ زراعت سے متعلقہ صنعتیں پروان چڑھا کر جلد ازجلد ایک عظیم اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے تصور کو تعبیر عطا کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے تھر پاکر کو سیراب کرنے کی خاطر نارا کینال کی تعمیر کا حکم فرمایا مگر بھارت کو اس منصوبے کی تعمیر برداشت نہ ہو سکی۔ یکم اپریل 1948ءکو ہمارے حصے کی نہروں کا پانی بند کر دیا تاکہ آئندہ فصل کاشت نہ کر سکیں لہٰذا فوری حکمت عملی کے تحت وہ وسائل اور افرادی قوت جو میانوالی ہائیڈرل پروجیکٹ کیلئے مختص تھی اٹھا کر نئی نہروں کی تعمیر پر لگا دیا۔ ہیڈ بلوکی سے سلیمانکی، مرالہ سے بلوکی اور ہیڈ مرالہ سے راوی نہروں کی تعمیر کا آغاز ہو گیا۔ اسی اثناءمیں حضرت قائداعظم ہم سے جدا ہوئے۔ قائد ملت کو شہید کر دیا گیا اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ تعمیر وطن کے خواب جن آنکھوں میں تھے انہیں سازش کے تحت حکومت سے دور کر دیا مجبور کر دیا۔ 1953ءمیں نہریں تکمیل ہوئیں مگر قائد کی تمنا کا منصوبہ تاخیری حربوں کی زد میں رہا اس دوران عالمی مالیاتی اداروں نے پانی کا جھگڑا حل کرنے کیلئے منصوبے پیش کئے انڈس واٹر ٹریٹی معاہدہ امریکہ برطانیہ کینیڈا مغربی جرمنی نیوزی لینڈ آسٹریلیا ورلڈ بنک اور پاکستان کے درمیان طے پایا جس کے مطابق راوی ستلج بیاس مکمل بھارت کو سپرد کر دیے اور جہلم چناب اور سندھ پر پاکستان کا حق بتایا گیا۔ پاکستانی قوم کے ساتھ عجب المیہ ہے کہ ان کے پانیوں پر بھی بھارت نے دریائے سندھ پر 24، جہلم پر 77 اور چناب پر 35 ڈیم تعمیر کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔جب چاہتا ہے سیلابی ریلا بھیج کر قیامت ڈھا دیتا ہے ہر صاحب سیاست کالا باغ کا نام لینے سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ یاد رہے جیسے کشمیر کے بغیر پاکستان کی تکمیل نہیں اسی طرح کالا باغ ڈیم کے بغیر وطن عزیز میں ترقی و خوشحالی کا تصور ممکن نہیں۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024