قیام پاکستان کے اعلان کے بعد جب ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم سرھند شریف اور گردونواح کے مسلمانوں کیلئے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے مزار پر کیمپ بن گیا جہاں ہزاروں مسلمان منتقل ہو کر سپیشل ٹرین کا انتظار کر رہے تھے، کہ عیدالفطر کے دو،تین دن بعد رو پڑسے پاکستان لے جانے والی خصوصی ٹرین پر بھارتی شرنا رتھیوں کے حملہ کی اطلاع ملی، تو مزار شریف پر قیام پذیر مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا چنانچہ میرے والد قاضی نصرالدین اور دو چچا قاضی سراج الدین اور قاضی ظہور الدین نوجوانوں کو لے کر اس مقام پر پہنچے جہاں ٹرین رکی ہوئی تھی اور زخمیوں کو لے کر مزار شریف آگئے، میری عمر اس وقت سات برس تھی اور میں مزار کی ڈسپنسری کے احاطہ میں زخمیوں کو پانی پلاتے ہوئے ڈسپنسری کے کمرہ میں چلا گیا جہاں میں نے ایک باریش خوبصورت نوجوان کو دیکھا جس کے سر کا بھیجہ باہر نکلا ہو تھا۔ یہ منظر دیکھ کے بے ہوش ہو گیا اور بعد ازاں بخار ہو گیا، میں آج تک اس نوجوان شہید کو فراموش نہیں کر سکا، نہ ہی اس کا چہرہ بھلا سکا ہوں۔ ہر 14اگست کو اس کا چہرہ میرے سامنے آ جاتاہے اور سوال کرتا ہے کہ کیا پاکستان میں وہ نظام قائم ہو گیا جس کے لیے ہم نے زندگیاں قربان کی تھیں، اب جبکہ بھارتی وزیر خارجہ شری کرشنا جی پاکستان آئے اور ویزوں کی سہولتو ں کے معاہدہ پر دستخط کیے تو میرے سامنے اسی شہید نوجوان کا چہرہ آگیااور پوچھا کہ کشمیریوں کی آزادی اور پانی کے مسئلے پر بھی کوئی معاہدہ ہوا ہے، اب میں اس لہولہان چہرے کو کیا جواب دیتا، موجودہ صدر مملکت کے سسر ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ایک ہزار سال تک بھارتیوں کے ساتھ لڑنے کا اعلان کیا تھا اور پھر 1972کے دور آخر میں راولپنڈی میں پی پی پی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اعلان کیا تھا، ”اومائی اندراسن لومیرا نام ذوالفقار علی بھٹو نہیں اگر میں بھارت سے پاکستان کو توڑنے کا انتقام نہ لوں، بعد ازاں بھٹو شہید نے ایٹم بم بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ قوم گھاس کھا لے گی لیکن ہم اسلامی بم ضرور بنائیں گے، کیسی بلندی اور اب پستی کی انتہا دیکھیئے بھٹو کا دامادجو کہ روحانی فرزند ہونے کا دعویدار ہے، امریکی آقاﺅں کے حکم پر بھارت کے سامنے سرنگوں ہو چکا ہے، پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشیں عروج پر ہیں، وزیر داخلہ رحمن ملک سینٹ میں واشگاف اعلان کرتاہے کہ بلوچستان میں بھارت ملوث ہے، کیا کرشنا جی کے دور ہ میں ہمارے حکمرانوں کو بھارت کی سازشوں پر بھی بات چیت کی ہمت ہوئی، جبکہ بھارتی وزیر خارجہ حافظ محمد سعید کے خلاف کاروائی کی دہائی دے رہے تھے اور ہماری وزیر خارجہ حناءربانی فرما رہی تھیں ثبوت دیں ہماری عدالتیں آزاد ہیں، حناءربانی کے صدر تو عدالتوں خصوصاً سپریم کورٹ کے ججز کو جانبدار قرار دے رہے ہیں، اور ان ججز کی کردار کشی کے لیے اپنے تیسرے درجہ کے گماشتوں کو مقرر کر رکھا ہے، او رچند چینلوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔
میرے سامنے سید سرفرار احمد شاہ کی روحانی گفتگوپر مشتمل کتاب ”فقیر رنگ“ پڑی ہے، جس کی نشست نمبر37میں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ”مسلمان معاملات کو بہت گہرائی سے دیکھتا ہے کیونکہ مومن معاملات کو رب تعالیٰ کے نور کی مدد سے دیکھتا ہے لہذا ہمارا کوئی قومی یا بین الاقوامی معاملہ ہو ہم سطحی نظر سے بلکہ نہایت گہرائی سے اس کا جائزہ لیں کہ کہیں ایسا تو نہیں امت مسلمہ کے دشمن دراصل دوست کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آئے ہیں، شاہ صاحب کہتے ہیں ایک حقیقی واقعہ میرے علم میں آیا تھا جب میں گورنمنٹ کیلئے کام کر رہا تھا بریفنگ کے دوران ایک صاحب نے تحقیق پر مبنی ایک واقعہ بیان کیا کہ مصر میںMid 60s میں ایک فیصل نامی صاحب پبلک میں بطور سوداگر متعارف ہوئے اور ہر محفل میں اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف بہت شدت سے جذباتی باتیں کرنے لگے ، وہ کہا کرتے کہ میری زندگی کا ایک ہی مشن ہے کہ میں اسرائیلوں اور یہودیوں کو تباہ وبرباد ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں رفتہ رفتہ ان صاحب کا ذکر مصر کے مختلف حلقوں میں ہونے لگا وہ صاحب بہت Frequently دعوتیں کرتے اور ان میں پانی کی طرح پیسہ بہاتے۔ موقف یہ ہوتا کہ میں اپنی دولت امت مسلمہ کیلئے خرچ کرنا چاہتاہوں بتدریج وہ فوج کی سینئر کمانڈ تک جا پہنچے، اور وہاں بھی اسرائیلیوں اور یہودیوں کے خلاف کھل کر باتیں کرتے، وہ فوج کو دل کھول کر عطیات بھی دیتے حتی کہ وہ وقت آگیا جب شام اور مصر کے جرنیلوں کے ساتھ ان کے تعلقات استوار ہوئے اور وہ ایک جذباتی قسم کے محب وطن کے طور پر جاننے لگے، وہ ان جرنیلوں سے کہتے کہ اگر اسرائیل ہم پر حملہ کر ے گا تو منہ کی کھائے گا، ایک روز جنرل ان صاحب کو گولان کی پہاڑیوں پر لے گئے اور وہاں کھڑے ہو کر دکھایا کہ یہ اسرائیل کے خلاف ہمارے فلاں فلاں ڈیفنس ہیں، فیصل نے وہ تمام معلومات اور Defences اسرائیل کو Pass On کر دیئے، 1967میں جب اسرائیل نے حملہ کیا توان معلومات کا فائدہ اٹھایا اور چند گھنٹوں میں انہوں نے گولان کی پہاڑیاں شام سے چھین لیں حالانکہ مصری اور شامی افواج کو یقین تھا کہ اسرائیل کئی ماہ بھی ٹکریں مارتا رہے تو یہاں تک نہیں پہنچ سکے گا، بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ صاحب بنیادی طور پر اسرائیلی تھے اور اسرائیلی انٹیلی جنس فورس نے انہیں جاسوس کے طور پر مصر میں بھیجا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024