کراچی کے واقعہ پر آرمی چیف کا کورکمانڈر اور وزیراعلیٰ سندھ کا وزراء کی ٹیم کے ذریعے انکوائری کا حکم
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ہوٹل سے گرفتاری کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کورکمانڈر کراچی کو حقائق کا تعین کرنے کیلئے فوری طور پر حالات و واقعات کی انکوائری کرنے کی ہدایت کی ہے اور اس ضمن میں انہیں اپنی رپورٹ جلدازجلد بھجوانے کی ہدایت کی ہے۔ بلاول ہائوس کراچی کے ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے کراچی واقعہ کا نوٹس لینے پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا اور واقعہ کی شفاف انکوائری کیلئے انکے احکامات کو بھی سراہا۔ قبل ازیں کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے فوجی قیادت سے درخواست کی کہ وہ پیر کو کراچی میں پیش آنیوالے واقعہ کی تحقیقات کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے اس واقعہ پر وہ شرمندہ ہیں اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے کہ ایسا کیونکر ہوگیا۔ مہمانوں کو ایسے ہراساں کرکے گرفتار کرنا شرمناک‘ قابل مذمت اور سندھ کے عوام کی توہین ہے۔ انکے بقول پولیس افسر چھٹی پر جارہے ہیں کہ یہ انکی عزت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اگر ہمیں بدنام کرنے کی سازش تھی تو یہ بہت برا مشورہ دیا گیا۔ جیسے بھی ہوا‘ اس واقعہ کو ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ صوبہ اپنی تحقیقات کریگا۔ ادارے بھی اپنی تحقیقات کرائیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کیپٹن (ر) صفدر نے مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے دوسرے عہدیداروں اور کارکنوں کے ہمراہ کراچی میں مزار قائد پر جا کر سیاسی نعرے لگائے اور اس طرح وہ بانیٔ پاکستان قائداعظم کے مزار کی صریحاً توہین کے مرتکب ہوئے چنانچہ وقاص احمد خان نامی کراچی کے ایک شہری کی مدعیت میں انکے اور دوسرے مسلم لیگی ارکان کیخلاف مزار قائد کی توہین اور اس سے روکنے پر مدعی کو قتل کی دھمکیاں دینے کے الزام میں کراچی کے ایک تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔ کیپٹن صفدر کے اس فعل کی ہرگز تائید نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی مزار قائد اور اسی طرح دوسری بزرگ ہستیوں کے مزارات کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کسی کو اجازت دی جانی چاہیے۔ مزار قائد کے تحفظ کا تو باقاعدہ قانون موجود ہے اور اسی کے تحت کیپٹن (ر) صفدر کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا جبکہ مزار قائد پر انکی جانب سے کی گئی نعرے بازی کی خود وزیراعلیٰ سندھ اور پی ڈی ایم کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی کے عہدیداروں نے بھی مذمت کی ہے تاہم جس پراسرار انداز میں علی الصبح متعلقہ ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی وہ بھی کسی صورت قابل ستائش فعل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ اس پر فوری طور پر پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین اور سندھ حکومت کا ردعمل بھی سامنے آگیا جنہوں نے اس واقعہ کو پی ڈی ایم میں دراڑیں ڈالنے کی سازش اور مولانا فضل الرحمان نے مریم نواز اور پی ڈی ایم کے دوسرے قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس واقعہ کو پوری پی ڈی ایم پر حملے کے مترادف قرار دیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں جہاں یہ کہا کہ مزار قائد کا تقدس ہم سب پر فرض ہے وہیں انہوں نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے واقعہ کو سندھ کی مہمان نوازی والی روایات کے منافی قرار دیتے ہوئے سندھ کے وزراء کی ٹیم کے ذریعے اس واقعہ کی انکوائری کا بھی اعلان کیا۔ انکی پریس کانفرنس کے بعد آئی جی پولیس سندھ اور سندھ کے متعدد دوسرے پولیس افسران کی جانب سے رخصت کی درخواستیں دینے کی اطلاعات بھی ملنا شروع ہوگئیں جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک جانب آرمی چیف سے کراچی کے واقعہ کی شفاف انکوائری کی درخواست کی اور دوسری جانب وہ سندھ پولیس سے اظہار یکجہتی کیلئے آئی جی ہائوس پہنچ گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر سندھ پولیس کے متعلقہ افسران نے رخصت پر جانے کا فیصلہ مؤخر کردیا۔ اس سے بادی النظر میں یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ سندھ پولیس کے متعلقہ افسران نے بلاول بھٹو زرداری اور سندھ حکومت کے ایماء پر ہی رخصت کی درخواستیں دی تھیں جس کا مقصد سندھ میں امن و امان کی ذمہ داریوں پر مامور ایک ریاستی ادارے کو بدنام کرنا تھا۔
اس حوالے سے یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ جب وزیراعلیٰ سندھ نے خود کراچی کے واقعہ کی انکوائری کیلئے اپنی کابینہ کے ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی تھی تو بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ہی سندھ حکومت کے اس اقدام پر اعتماد اور اطمینان کا اظہار کیوں نہ کیا اور انہیں انکوائری کیلئے آرمی چیف سے درخواست کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ آرمی چیف نے تو یقیناً قومی ریاستی ادارے کی عزت و ناموس کی خاطر کورکمانڈر کراچی کے ذریعے کراچی کے متذکرہ واقعہ کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔ اگر سندھ حکومت خود اس معاملہ کو سلجھانے کے قابل ہوتی اور اس پر کسی قسم کی سیاست نہ کرتی تو آرمی چیف کی اس معاملہ میں مداخلت کی نوبت ہی نہ آتی۔
اب چونکہ آرمی چیف نے متذکرہ واقعہ کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور سندھ حکومت اپنے طور پر انکوائری کررہی ہے اس لئے مناسب یہی ہے کہ اس معاملہ پر کسی قسم کی بیان بازی سے گریز کیا جائے اور انکوائری رپورٹ کا انتظار کیا جائے جس سے یقیناً دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔ اگر سندھ حکومت خود ہی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے مزار قائد کی توہین پر کیپٹن (ر) صفدر کیخلاف اندراج مقدمہ سمیت قانونی کارروائی عمل میں لے آتی تو انکی گرفتاری کے حوالے سے رونما ہونیوالے ناخوشگوار واقعہ کی نوبت ہی نہ آتی۔ بحیثیت مسلمان ہم پر مزار قائد ہی نہیں‘ تمام مقابر کا احترام واجب ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے کلچر میں قبروں پر بھی سیاست ہو رہی ہے چنانچہ ماضی قریب میں موجودہ حکمران پی ٹی آئی اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی مزار قائد پر پبلک جلسوں کا انعقاد کرتی رہی ہیں۔ اب مزار قائد کے تقدس کے تحفظ سے متعلق قانون کی سختی سے پابندی کرانا ضروری ہے اور مناسب ہوگا کہ کراچی کے واقعہ کی انکوائری کی بنیاد پر اس واقعہ پر سیاست کا باب ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جائے اور آئندہ کسی کو مزار قائد پر جلسے یا کسی احتجاجی پروگرام کی قطعاً اجازت نہ دی جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024