ماحولیاتی مسائل اور ان کا سدِ باب
انسان صدیوں سے اس زمین پہ زندگی گزار رہا ہے۔وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ انسان اور زمین لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور ممکن نہیں۔ماحولیات میں آلودگی سے پہلے پاکستان بہت ہی خوبصورت تھا اور اس وقت ہر شے خوبصورت لگتی تھی۔ شہر، قصبے، گاؤں، ندی نالے، چشمے، نہریں، ندیاں، دریا، پہاڑ، سڑکیں، کچے پکے راستے اور کھیت سب کچھ حسین تھا۔ صاف ستھرا ماحول، موسم اپنے وقت پر بدلتے، کسان وقت پر بوتے، وقت پر کاٹتے۔ سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق چلتا تھا۔ اس لیے خدا اور بندے دونوں ہی خوش رہتے تھے لیکن اب پہلے جیسا ماحول نہیں رہا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب سب سے زیادہ آلودگی پاکستان میں ہی پیدا ہو گئی ہے اور کی وجہ انسان ہیں۔انسان نے اپنی کارستانیوں کی وجہ سے ماحول کو آلودہ کیا ہے۔ اس کی وجہ سے اب پاکستان کی فضائیں زہریلی ہو چکی ہیں۔ صاف شفاف ہوا آلودہ ہو چکی ہے۔ ندیاں چشمے اور دریا بد بودار ہو چکے ہیں۔ زہریلی گیسوں اور گاڑیوں کے دھوئیں نے آسمان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ خوفناک بیماریاں تیز رفتاری سے پھیل رہی ہیں اور زیادہ تر انسان اس کی گرفت میں مبتلا ہیں۔ پہلے ماحول اتنا آلودہ نہ تھا جتنا آج کے دور میں ہو گیا ہے۔ اب تو ہر طرف آلودگی ہی نظر آتی ہے اور آنے والے وقت میں اس پر روک نہ لگائی گئی تو اس کا منظر اور بھی خوفناک ثابت ہوگا۔بہتر یہی ہے کہ ہم ایسے انتظامات کریں جن سے اس پریشانی کو دور کیا جا سکے۔آج کل گاؤں، قصبوں اور شہروں میں گاڑیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کا چلنا محال ہو چکا ہے۔ اس اضافے سے ڈیزل، پٹرول اور گیس کے زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے فضا اس قدر آلودہ ہوگئی ہے کہ اب ماسک پہننا ضروری قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ سڑکوں اور راستوں پر پبلک ٹرانسپورٹ لائی جائے۔ جن سے دھواں نہیں نکلتا ہو اور وہ ماحول کو بھی آلود نہ کر سکیں۔اندرونی شہروں کے سفر کے لیے ڈبل ڈیکر بسوں کا استعمال کیا جانا چاہیئے کہ گاڑیوں کی تعداد میں کچھ کمی ہو سکے اور سڑکوں پر رش بھی کم ہو جائے گا۔اسکولوں اور کالجوں،یونیورسٹیوں کو بسیں مہیا کی جائیں تا کہ طالب علم گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی بجائے بسوں میں سفر کریں۔موٹر سائیکل کی تعداد کم کی جائے اور کیونکہ موٹر سائیکل کے چلانے سے ہی فضا سب سے زیادہ آلودہ ہوتی ہے اسلیئے سائیکل کو رواج دیا جائے۔ سائیکل سواروں کے لیے سڑکوں پر ٹریک بنائے جائیں۔ کم قیمت لیکن عمدہ سائیکلیں لوگوں میں تقسیم کی جائیں۔ اور ایسی سائیکلیں بھی جو پہاڑی علاقوں میں بھی چلائی جا سکیں۔ملکی سائنسدانوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے ترغیب دی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات دیے جائیں۔ تاکہ وہ ایسے سامان ایجاد کریں جو آلودگی روکنے میں معاون ثابت ہوں۔دور کے سفر کے لیے ریل کے سفر کو عام کیا جائے اور اسے جدید اور آرام دہ بنایا جائے۔ دنیا بھر میں اس سفر کوانتہائی محفوظ سمجھا جاتا ہے اور یہ آلودگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اس محفوظ سواری کو عام کرنے کے لیے بہت لاپروائی برتی۔ موجودہ حکومت نے اس طرف کسی حد تک توجہ دی، لیکن اب بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔آلودگی کو کم کرنے کے لیے نچلی سطح تک لوگوں میں آگاہی مہم شروع کی جائے۔ تاکہ لوگ اس مسئلے کو سمجھ سکیں اور آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔افسوس کہ اس ملک میں شجر کاری ہر سال کی جاتی ہے لیکن ابھی تک اس کے فوائد نظر نہیں آئے۔ درخت قدرت کی سب سے خوبصورت نعمت میں سے ایک ہیں،اور یہ آلودگی کو ختم کرنے کا سب سے کارآمد نتیجہ ہیں۔ اس سے ہمیں آکسیجن فراہم ہوتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو درخت لگانے کے فوائد سے آگاہ کیا جائے اور درختوں کو کاٹنا ایک قومی جرم قرار دیا جائے۔اس پر سختی سے عمل کیا جائے تاکہ ہم اس آلودہ ماحول کو کچھ حد تک کم کر سکیں۔ ہمارا مذہب بھی درختوں کے قتل عام سے منع کرتا ہے۔ درختوں کی کٹائی روکنے کے لیے علماء بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کے زہریلے دھویں سے ندیاں، نہریں، تالاب، دریا آلودہ ہو چکے ہیں۔ اس لیے پینے کے پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ اور جو فیکٹریاں اور کارخانے زہریلے مواد کا علاج (Treatment) نہیں کرتے ان پر نہ صرف جرمانے کیے جائیں بلکہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو ان کارخانوں اور فیکٹریوں کو بند کر دیا جائے۔افسوس ہے کہ ماحولیات کا محکمہ تو ہمارے ملک میں موجود ہے لیکن اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جائے تو سال کے اندر اندر اس کے اثرات کم ہوتے نظر آنے لگیں گے اور ہمارا آلودہ پانی اپنی اصل حالت کی طرف لوٹنے لگے گا۔ ان قلیل المدت منصوبوں پر اگر آج سے ہنگامی بنیادوں پر عمل شروع کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ برس فضائی آلودگی میں کافی حد تک کمی ہو جائے گی۔ ملکِ عزیز سے آلودگی کو جلد از جلد مٹانا انتہائی ضروری ہے اور اگر ہم آلودگی کو نہ مٹا سکے تو آلودگی ہمیں مٹا دے گی۔