ایک طویل مدت بعد آج کا ’’ولایت نامہ‘‘ ایک بار پھر اپنی پنجاب پولیس کے نام کرنا چاہتا ہوں۔
ماضی میں پنجاب کے جن آئی جیز سے میری یاد اللہ اور انکے محکمہ کے حوالہ سے تحقیقاتی چھیڑ چھاڑ جاری رہی ان میں میرے انتہائی محترم حاجی محمد حبیب الرحمن سرفہرست ہیں۔ حاجی صاحب بلاشبہ قابل افسر تھے اہلکاروں اور افسروں کے وہ بہت بڑے نباض رہے۔ پولیس رولز پر ہر ممکن عملدرآمد اور اصولوں پر کسی بھی قسم کی سودے بازی کو وہ گناہ کبیرا تصور کرتے تھے۔ پنجاب پولیس کو سفارش‘ رشوت‘ تھانہ کلچر سے پاک کرنے‘ ’’تھرڈ ڈگری میتھڈ‘‘ کے خاتمہ اور اہلکاروں اور افسروں کی بڑی توندوں کو مخصوص وقت میں اپنے اصلی سائز میں واپس لانے کیلئے انہیں میں اکثر تجاویز دیا کرتا تھا۔ پولیس بجٹ اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی پر بھی ہماری اکثر بحث ہوتی اور پھر آخر ’’تھانہ کلچر‘‘ کے خاتمہ اور بڑی توندوں والے اہلکاروں اور افسروں کے خلاف انہوں نے سخت فیصلے کرنے شروع کئے ہی تھے کہ ان کا بھی وہ وقت آ گیا جسے ’’ریٹائرمنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آخری سلامی لی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے آپ کو دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ مرحوم جاوید نور اور سندھ کے سابق آئی جی قمر عالم صاحبان سے بھی ایسا ہی سلسلہ جاری رہا مگر! مجموعی طور پر پولیس کی اصلاح ممکن نہ ہو سکی۔ اب کی بار انعام غنی صاحب کی عاجزی و انکساری چونکہ سامنے آئی ہے اس لئے از سر نو ایک امید پیدا ہوئی ہے ان کے ٹویٹر بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پولیس فورس پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے پولیس اصلاحات کی روشنی میں وہ بعض ایسے تاریخی اقدامات کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں جس سے اکیسویں صدی کی پولیس کو اب عوام دوست پولیس بنایا جا سکے گا۔ مجھے انہیں میٹرو پولیٹن پولیس‘ سکاٹ لینڈ یارڈ‘ سپیشل برانچ‘ لندن سٹی پولیس‘ اینٹی ٹیررسٹ‘ ٹرانسپورٹ پولیس‘ ایم آئی فائیو یا سراغرساں پولیس ایجنٹوں کی مثال دینا یہاں ہرگز مقصود نہیں دنیا کے ہر مہذب اور ترقی یافتہ ملک کی پولیس کا اپنا طریقہ کار ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے قومی اداروں کو ’’رضائے ربی‘‘ تصور کرتے ہوئے انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے۔ مجھ سمیت ہر برطانوی پاکستانی کی یہ اولین خواہش ہے کہ پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختون پولیس کا ہر تھانہ‘ ہر چوکی‘ ہر سی آئی اے ادارہ اور ’’ناکوں‘‘ پر اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے والے سپاہی‘ حوالدار‘ چھوٹے‘ بڑے اور بہت ہی بڑے تھانیدار عام شہریوں سے دوستانہ رویہ رکھتے ہوئے انہیں عزت و احترام دیں تا کہ ان کا ’’تھانوں‘‘ اور تھانیداروں کے بارے میں ہمیشہ کیلئے ختم ہونے والا اعتماد دوبارہ بحال ہو سکے۔ آئی جی جب پولیس کو یہ حکم دیں کہ ہر اہلکار اور افسر اپنا رویہ درست کر لے تو مطلب صاف عیاں ہے کہ فورس میں پائی جانے والی بعض گندی مچھلیوں کی صفائی اب ناگزیر ہے۔ مجھے یہاں سندھ کے موجودہ ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن صاحب کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو لندن میں اپنی ڈیپوٹیشن مکمل کرنے کے بعد گزشتہ برس ہی سندھ میں تعینات ہوئے ہیں۔ میمن صاحب! بلاشبہ نیک اور فرض شناس آفیسر ہیں میری ان سے بھی یہی درخواست ہے کہ سندھ کی امن و امان کی صورتحال پر جس طرح توجہ دے رہے ہیں اپنی فورس میں بڑی توندوں والے اہلکاروں اور افسروں کیلئے بھی وہ فوری احکامات جاری کریں تا کہ سندھ پولیس کی سمارٹنس کو بھی از سر نو بحال کیا جا سکے۔
پنجاب کے آئی جی انعام غنی صاحب سے عوام اب یہ توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے کہ اپنے Tenure کے دوران پولیس کے وہ امور جو گزشتہ ادوار میں التوا کا شکار رہے انہیں وہ ترجیحی بنیادوں پر مکمل کریں۔ میرے ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس کا موجودہ بجٹ 96 کروڑ کے لگ بھگ رکھا گیا ہے جس سے پولیس کے بڑے منصوبے آسانی سے مکمل ہو سکتے ہیں۔ پولیس کے گرے مورال کو دوبارہ بحال کرنا سب سے اہم معاملہ ہے۔ کہا جاتا ہے پولیس کے بیشتر اہلکار اور تھانیدار یونیفارم نہیں پہنتے مبادا وردی سے تھانوں اور چوکیوں میں ان کے ڈیوٹی کے اوقات کار معلوم نہ ہو جائیں۔ جبکہ دوسری جانب اس فورس کے وہ فرض شناس اہلکار و افسران جو 12 گھنٹے ڈیوٹی دے کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ پولیس کو سیاسی مداخلت اور با اثر افراد سے آزاد کروانا بھی ایک اہم ترین مسئلہ ہے جس کا نئی پولیس اصلاحات کی روشنی میں حل نکالنا بھی ضروری ہے۔ پنجاب پولیس کے حوالہ سے شہریوں کیلئے سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ سیالکوٹ موٹر وے کے مرکزی Rapist عابد ملہی کو جسے پولیس کی مبینہ 28 ٹیموں نے 35 یوم کے بعد گرفتار کرنے کے بعد جوڈیشنل ریمانڈ پر کیمپ جیل بھیج دیا ہے۔ بظاہر تو پولیس کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے مگر بعض کرائم اور تحقیقاتی رپورٹروں کے مطابق عابد ملہی کی گرفتاری میں پولیس کا وہ کردار سامنے نہیں آیا میڈیا پر جس کی گزشتہ دنوں تشہیر کی گئی۔ اس درندہ صفت ملزم بیٹے کے والد کے ذرائغ ابلاغ کو دیئے گئے بیان کیمطابق اپنے ملزم بیٹے کو خود اس نے پولیس کے حوالے کیا ہے۔ ملزم کے والد کے اس بیان میں کہاں تک صداقت ہے؟ اس بارے میں اصل حقائق آئی جی صاحب کو ہی بتانا ہوں گے۔
میرے ذرائع کے مطابق ابتدا میں درندہ صفت ملزم عابد ملہی کی گرفتاری کیلئے 25 لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا مگر اگلے روز پولیس کو دیئے جانے والا یہ انعام 50 لاکھ ہو گیا۔ اس انعام پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے بھی حیرت اور برہمی کا اظہار کیا ہے عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملزم پکڑنا جب پولیس کی ذمہ داری ہے تو پھر اتنی خطیر رقم کا انعام کس لئے؟ عدالت عظمیٰ کی برہمی اس لئے بھی درست ہے کہ جب ’’ماٹو‘‘ ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘تو اتنی خطیر رقم بطور انعام دینا میری دانست میں بھی ہرگز حوصلہ افزا اقدام نہیں۔ پولیس کے جوانوں اور افسروں کی حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہئے تعریفی اسناد اور سرٹیفکیٹس کے ہمراہ ان کی پروموشن کے سلسلہ میں تیار کی جانے والی سالانہ اے سی آر میں اضافی مارکس کا اضافہ ہونا چاہئے۔ 50 لاکھ کے اس انعام پر میری ایک تجویز ہے کہ اس خطیر رقم کا ایک بڑا حصہ ’’پنجاب بیت المال‘‘ کو اگر تفویض کر دیا جائے تو اس رقم سے درجنوں قوت سماعت اور قوت گویائی سے محروم بچوں کا جدید خطوط پر علاج ممکن ہو سکتا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ میری اس تجویز کا جناب انعام غنی صاحب خیر مقدم کریں گے کہ ہماری پولیس میں ’’اللہ والوں‘‘ کی بھی قطعی کمی نہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024