مجھے آج قائداعظم میڈیکل کالج کے اناٹومی کے استاد مختار صاحب یاد آ گئے، جب میں نے اپنے چند ہم دوستوںکے ساتھ جا کر ان سے ،ایس ای کالج میں ایک تقریری مقابلہ ، سننے کی اجازت مانگی ، تو انہوں نے کہا کہ اگر تم خود تقریر کر رہے ہو تو پھر ٹھیک ہے چلے جائو ، اور وہ خود بھی جا کرتقریر سنیں گے لیکن اگر صرف بقول ان کے ہم نے ہاتھ باندھ کے صرف دیکھنا اور کھڑے ہوناہی ہے اور خود کچھ نہیں کرنا تو وہ اس کو ایک، کاربیکار یا تماش بینی سے تشبیہ دیں گے اور ، ایسی تماش بینی کی وہ اجازت نہیں دیں گے ان کا کہنا تھا کہ جو بھی ہو ،تماشہ بنو ، تماش بین نہ بنو بہت بعد میں سمجھ آیا کہ جناب، تماشہ بننابڑا صبر والا اور مشقت والا کام ہے اسی لئے نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا،نپولین کے ہاں تو بغیر شہرت کے مر جانا نہ پیدا ہونے کے مترادف ہے ۔ٹیپو سلطان جیسے اور سلطانوں کے ناموں کو کوئی کتنا جانتا ہے صرف اس لئے کہ جب ٹیپو سے ان کا وفادار ساتھی جان بچانے کا کہتا ہے ،کہ وہ حملہ آور دشمن کے سپاہی کو یہ بتا دیں کہ وہ ہی سلطان ہیں تو ان کی جان بچ جائے گی ، لیکن انہوں نے اپنا تعارف کرانے سے انکار کیا اور شہید کر دئیے گئے ،ایسے ہی جب بھٹو نے جنرل ضیا سے رحم کی اپیل نہ کی اور سقراط سچ کے راستے پر قربان ہوگیا،اس نے شاگرد وں کو جیل توڑ کر اس کو چھڑانے سے منع کر دیا تھا کیوںکہ تماشہ بننے کے لئے،میدان میں جان قربان کرنی بھی پڑ سکتی ہے۔ قارئین، بات کہاں سے کہاں چل نکلی ،تو ان دنوں ہمارا ہوسٹل بہاولپورشہر سے باہر، چشتیاں روڈ پر ہوتا تھا نیچے کالج کی کلاس ہوا کرتی، اور اوپر گھر کی طرح ہماراہوسٹل ہوتا۔جہاں سخت مزاج پروفیسر مشتاق جو خود بھی کتاب کے مصنف تھے،اور پہلے پرنسپل ہمدانی ،او ر شفیق ،ٹیچر،ڈاکٹر نواب احمد کے کمرے ہوتے ، ہمارے اس وقت کے طالب علموں میں را نازاہد علی ، آج کل ملتان کے مشہور آئی سرجن، محمداسلم جو بعد میں فوج میں بریگیڈیر بنے ، لیکن ہم ان کو ،انتہائی معذرت سے اسلم ہلاکو کہتے تھے، میرے ساتھ والے کمرے میں میرے ہم جماعت رفیع ، مہدی حسن کے راگوں پر رس گھول رہے ہوتے ،عجب سماں ہوتا، ہمیں اس وقت اجازت نہ ملنے پر غصہ آیا، لیکن آج کے ملکی حالات دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ ہنوز دلی دور است ، ایسا لگتا ہے کہ جیسے سارا شہر ہی تماش بین ہوگیا ہے نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی ہے۔ نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں۔ آج کے سیاسی حالات میں، نہ پی پی پی کے جیالے کوڑے کھانے اور شاہی قلعہ میں قید کاٹنے والے سیاسی ورکر ہیں، تحریک انصاف کے ممی ڈیڈی گاڑیوں میں ایک جھنڈا اُٹھائے جا رہے ہیں ، تو ادھر نون لیگی، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر پالیٹکس پالیٹکس کھیل رہی ہے۔
یہ دیکھ کر تو بے ساختہ راقم ،کو ننگے پاوں والے پی پی پی کے ورکر یاد آ تے ہیں جو میلوں پیدل جلوس کے ساتھ انیس سو چھیاسی کو گوجرانوالہ آ رہے ہوتے تھے ، اور ان کا جوش دیدنی ہوتا۔ وہ ہی ورکر تھے جو کوڑے اور شاہی قلعہ کی سزائیں تک کاٹ گئے وہ خود تماشا بن گئے تماش بین نہ بنے ،آج کل نواز شریف بھی بڑی دیر پردے کی چلمن کے پیچھے رہنے کے بعد، تماشبین کے بجائے ، میدان عمل میں اتر آئے ہیں،ڈکٹیشن کے نعروں کو چھوڑ کر۔ یہ الگ بات کہ وہ عملی میدان سے کوسوں دور لندن میںار،تغرل غازی کا روپ دھار رہے ہیں اور خود تماشہ کرنے پہ آگئے ہیںاور پہلی اور آخری بار ان کی للکار ،سمجھوتے کے بغیر ایک جیالے کی سی تڑپ لگ رہی ہے، لوگ ان سے عملی سرفروشی کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان کے بحر کی تہہ سے کیا برآمد ہوتا ہے ،طاقت صرف طاقت کو تسلیم کرتی ہے بشرطیکہ مسلم لیگ بھی ڈرائنگ روم پالیٹکس سے باہر آ سکے، اور ملک کو صحیح جمہوریت سے ہمکنار کر کے اپنے پرو اقتدار پارٹی کا داغ دھو سکے اور عوامی طاقت سے جمہوریت کو آزادی دلائی جائے۔چوری کھانے والے مجنوں، جلسوں سے کس طرح تک جمہوری آمریت کو زیر کرسکیں گے۔اس کے لئے خودتماشہ بنیں اور گلیڈیٹر ، میکمس بنکرہر قسم کی صعوبتوں ،جیل کی سلاخوں سے ٹکرایا جائے،کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ، اس پیارے ملک میں کیا پہلے ہی خون کی اس ہولی میں ایک لیڈر پھانسی، اسکی بیٹی قتل ہو چکی ہے اور سیزر اور بروٹس کی کہانی نئے کرداروں میں جلوہ گر ہو کر وحشت زدہ کرتی رہے گی۔ کس نے بظاہردنیا کے سٹیج پر جنگ جیتی ہے اورکس نے تاریخ کے اوراق میں لافانی ہونا ہے یہ فیصلہ صرف وقت نے کرناہوتاہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024