وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر کا فوکس ’’بیرونی سرمایہ کاری‘‘ تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بیرونی سرمایہ کاری سے ہی پاکستانی معیشت میں استحکام لایا جا سکتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ جس ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی، سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کرنے لگتے ہیں اس ملک کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر سُو بدحالی کا دَور دورہ نظر آنے لگتا ہے، زوال کا نہ ختم ہونے والا طویل سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ء کو ٹیک اوور کیا تو اپنی چوائس کے مطابق وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ کے لیے ظفر اللہ جمالی اور پھر شوکت عزیز کو لے کر آئے۔ شوکت عزیز کو بیرون ملک سے خصوصی طور پر وزیر اعظم کے عہدہ پر براجمان ہونے کے لیے بلایا گیا ۔ شوکت عزیز چونکہ اکنامکس کے ماہر تھے اس لیے جنرل صاحب نے اُن کا انتخاب کیا۔ مقصد یہی تھا کہ وہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لا سکیں، ملک کو معاشی طور پر بہتر طریقے سے چلا سکیں۔ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شوکت عزیز نے سنگا پور کے سرمایہ کاروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس میں اُنہیں دعوت دی کہ وہ پاکستان میں مختلف منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کریں۔ اس موقع پر جب وہ یہ میٹنگ کر رہے تھے ایک غیر ملکی سرمایہ کار نے شوکت عزیز کے سامنے یہ سوال اٹھایا کہ آپ کے اپنے ملک سے کتنے سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب وزیراعظم شوکت عزیز کے پاس نہیں تھا، وہ خاموش ہو گئے۔بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے سرمایہ کار ملک میں نئے یا جاری منصوبوں میں سرمایہ کاری کی بجائے منی لانڈرنگ کے ذریعے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرتے ہیں، ملک کو فائدہ پہنچانے کی بجائے دوسرے ملکوں کے معاشی سفر میں اُن کے شریک کار بن جاتے ہیں۔ ان میںایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے۔ بیرون ملک سرمایہ کاری کا یہ ایسا کلچر ہے جو بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ جس نے ہمیں شدید قسم کے معاشی عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میںانتہا درجے کی بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ ایوب خان کے دور میں شعیب قریشی وزیر خزانہ تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنا ذاتی سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔ اس واقعے کا ذکر قدرت اللہ شہاب صاحب نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے اور یہ رقم منتقل کرنے کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔جن میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما بشمول پی پی پی ، پی ایم ایل ن، پی ٹی آئی ، ریٹائرڈ جرنیل، ججز اور بیوروکریٹس شامل ہیں۔ ان سے عاجزانہ گزارش ہے کہ اپنا سرمایہ پاکستان میں لائیں تاکہ جہاں پر بھی نئی انڈسٹریاں لگیں ہماری بند فیکٹریوں کی چمنیوں سے بھی دھواں نکلنا شروع ہو جائے جس سے ناصرف پاکستان ترقی کرنا شروع کریگا بلکہ بیروزگاروں کو روزگار بھی ملے گا اور جرائم بھی کم ہوں گے۔ اس سارے تجزیے اور بات چیت سے صرف ایک ہی بات عیاں ہوتی ہے کہ ملک میں جب تک اندرونی یا بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ کاروبارمیں اُن کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کی جاتیں۔ نہ تو مقامی سرمایہ کار کوئی سرمایہ کاری کریں گے نہ ہی بیرون ملک سے سرمایہ کار، سرمایہ کاری کیلئے یہاں آئینگے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے2 نامور تاجر اور صنعت کار قاسم سراج تیلی اور محمد عبداللہ یوسف ہارون کے حالیہ بیانات خاصے تشویش ناک ہیں۔بہت سال پہلے میں نے ایس ایم ظفر کا ایک مضمون پڑھا تھا جو ایک مؤقر نیشنل اخبار میں شائع ہوا۔ اپنے اس مضمون میں ایس ایم ظفر نے ملائیشیا کا ذکر کیا کہ وہاں ون ونڈو آپریشن کے ذریعے ایک ہی چھت کے نیچے کس طرح مقامی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ کسی نے فیکٹری لگانی ہے، قرضہ حاصل کرنا ہے، گیس، بجلی، پانی کی ضرورت ہے۔ نقشہ منظور کرانا ہے۔ مشینری کی درآمد ہونی ہے یا کوئی اور مسئلہ درپیش ہے۔ آپ متعلقہ آفس میں اپنی درخواست جمع کراتے ہیں۔ جہاں ون ونڈو آپریشن کے ذریعے صرف 30دنوں کے اندر آپ کا ہر مسئلہ حل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی قسم کا نظام آ جائے تو سرمایہ کار مختلف دفاتر کے چکر لگانے سے بچ سکتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو سہولتیں مہیا کی جائیں۔ ٹیکسز سمیت گیس اور بجلی کے نرخوں میں رعایت دی جائے ۔ آسانیاں پیدا کی جائیں تو پاکستان بھی سرمایہ کاروں کی جنت بن سکتا ہے۔ جتنی سرمایہ کاری ہو گی پاکستان اتنی ہی ترقی کرے گا۔ بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہو گا اور خوشحالی آئے گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024