صنعتی اور جنگلات کی ترقی معیشت کی اساس
احسن صدیق
صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ جنگلات کی ترقی ہماری آب و ہوا اور معیشت کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ہے ماضی کی حکومتوں نے ملک میں جنگلات کی جانب توجہ نہیں دی اور نہ ہی ٹمبر مافیا کے خلاف موثر اقدام کئے جس کے باعث دستیاب اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 1990سے لیکر 2016کے دوران جنگلات کا رقبہ 3.3فیصد سے کم ہو کر 1.9فیصد رہ گیا اور گلوبل رینکنگ میں پا کستان کا نمبر 172ہوگیا۔جنگلات کی کمی نہ صرف زمینی رقبے پر کم ہوئی بلکہ سمندر کے ساھلی علاقوں میں بھی مینگرووز کے جنگلات کم ہوئے ۔زمین اور ساحلی علاقوں میںجنگلات کی کمی کے انتہائی منفی اثرات پاکستان کے موسموں پر مرتب ہوئے جنہوں نے ملکی معیشت کو بہت ذیادہ نقصان پہنچایا ۔موجودہ حکومت معیشت اور قدرتی ماحول کی بہتری کے لیے ملک میں بڑی تیزی سے کام کر رہی ہے جس میں نہ صرف عوامی سطح پر شرکت کی جارہی ہے بلکہ حکومتی سرپرستی کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ بھی بڑی تیزی سے کام کررہا ہے۔ قدرتی ماحول کے تحفظ میں یہ پیش رفت خوش آئند ہے کیونکہ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے جاری کردہ پاکستان اقتصادی سروے (2018-19ئ)کے مطابق لکڑی (لکڑی اور ایندھن کی لکڑی) کی سالانہ کھپت کا تخمینہ 44 ملین مکعب میٹر تھا جبکہ قدرتی جنگلات کی سالانہ نمو 14.4 ملی میٹر ³ ، جس کے نتیجے میں جنگل کے وسائل کا زیادہ استحصال ہوتا ہے۔ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (گول 7) کے تحت ، پاکستان نے جنگلات کا احاطہ 6 فیصد کرنے کا عہد کیا تھا ، جو بنیادی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مالی مشکلات کی وجہ سے حاصل نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح "دو طرفہ یا کثیرالجہتی ذرائع سے بیرون ملک ترقیاتی امداد (او ڈی اے) میں بھی بڑی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے جس نے حکومتی پالیسیوں اور درختوں کے احاطہ میں اضافی اراضی کو لانے کے منصوبوں میں سختی سے رکاوٹ ڈالی ہے۔"ایک امریکی فارسٹ اسٹڈی کے مطابق ایک درخت 50 برسوں میں 31,250 ڈالر مالیت کی آکسیجن فراہم کرتا ہے، 62,000 ڈالر کی آلودگی کے اخراجات کم کرتا ہے، 37,500 ڈالر مالیت کا پانی ری سائیکل کرتا ہے۔31250 ڈالر کی زمین بنجر ہونے سے روکتا ہے۔ شہروں کی طرف نقل مکانی کے باعث شہروں کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرتا ہے۔قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم، انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن آف نیچر (IUCN) کے مطابق پاکستان کے ساحلی پٹی کو قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا کرنے والی چند تبدیلیوں کی وجہ سے خطرہ ہے اور ساحلی پٹی کے ساتھ مینگروز کا مستقبل مخدوش ہے، پاکستان میںلکڑی کے مختلف استعمال، آلودگی، پانی کے دھاروں کے رخ میں تبدیلی، کان کنی اور دیگر مقاصد کے لیے مینگرووز کی کٹائی ایک خطرہ ہے۔مینگروز کی معاشی قدر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک ہیکٹر پر مینگرووز کے انتظام سے ایک سال میں 100 کلوگرام مچھلی حاصل ہوسکتی ہے، 25 کلوگرام، جھینگے، 15 کلو گرام کیکڑے حاصل ہوتے ہیں یعنی فی سال اوسط معاشی فوائد 28,662 ڈالر ہیں۔فشریز ہماری زراعت کا ایک اہم حصہ ہے، اس کے ذریعے ملک میں فوڈ سیکورٹی کو تحفظ ملتا ہے اور دیگر متبادل گوشت جیسے مرغی، مٹن، بیف وغیرہ کی سپلائی میں رسد کو پورا کرکے ملک میں قیمتوں کو متوازن کرنے کے ساتھ عوام کو بہترین غذا فراہم کرتی ہے۔پاکستان اکنامک سروے 2018-19ئ کے مطابق جولائی تا مارچ کے دوران 130,830 میٹرک ٹن مچھلی برآمد کی گئی اور ان کی مالیت 39,245 ملین روپے تھی۔مینگروز اور حیاتیاتی آبادی طوفانوں کے دوران ساحل کے خطرات جیسے سیلاب اور کٹاؤ کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، صحتمند واٹرشیڈز پانی کو صاف کرتی ہیں بلکہ بارش کا پانی جذب کرتی ہیں اور فلیش سیلاب کی شدت کو کم کرتی ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کو رہائش فراہم کرتے ہوئے مینگروز ساحلی سیلاب کے اثر کو کم کرتے ہیں یا مکمل طور پر خاتمہ کرتے ہیں اور مقامی معاشروں کے لئے معاش کا فائدہ رکھتے ہیں۔اسی طرح دس لاکھ پودوں کی شجرکاری کے ساتھ آئی ایم سی حکومت کی ’’کلین اینڈ گرین پاکستان‘‘ مہم کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہے۔انڈس موٹر کمپنی کی خواتین ملازمین نے کمپنی کی دس لاکھ پودوں کی شجرکاری مہم کے سلسلے میں پودے لگائے ہیں۔اس موقع پر کمپنی کی 80 سے زائد خواتین ملازمین نے حصہ لیا اور درخت لگائے۔ کمپنی نے اس مہم کا آغاز گزشتہ سال کیا تھا تاکہ حکومت کی ’’کلین اینڈ گرین پاکستان‘‘ مہم میں حصہ لیتے ہوئے اسے کامیاب بنایا جائے۔اس موقع پر سی ای او، آئی ایم سی، علی اصغر جمالی نے کہا کہ اب تک 175000 سے زیادہ پودے پورے ملک میں لگائے جاچکے ہیں، اس مہم کا مقصد کمپنی کے ملازمین اور سینئر انتظامیہ کو اپنے ماحول کی بہتری کے لیے کوشاں رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی سرسبز پاکستان مہم سے متاثر ہوکر اس مہم کا آغاز کیا گیا تھا اور توقع ہے کہ ہمارا کام دیگر لوگوں اور کاروباری اداروں کے لیے مثال بنے گا۔ٹیوٹا کا یہ عہد ہے کہ کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج 2050ء تک اپنی فیکٹریوں سے ختم کردیا جائے اور کمپنی اس سلسلے میں دس لاکھ پودے لگانے کا عزم رکھتی ہے۔کمپنی نے یونائٹڈ نیشن گلوبل کمپیکٹ پر بھی دستخط ہیں جس کے تحت قدرتی ماحول(ہدف 13) کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ شجر کاری سے زمین کا کٹائو ختم ہوتا ہے اور اسے تحفظ ملتا ہے اور اجاڑ زمین پر ہرے بھرے جنگلات قائم ہوئے ہیں جس سے بارش میں اضافہ اور موسم کی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔