معیشت پر عالمی سست روی کے اثرات
رانازاہداقبال
عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹا لینا جارجیوا نے کہاہے کہ دنیا کی معیشت سست روی کے دور سے گزر رہی ہے۔ وہ ترقی تو کر رہی ہیں مگر شرح بے حد سست ہے۔ دو سال پہلے دنیا کی معیشت بلندی کی طرف جا رہی تھی مگر اب سست ہونے لگی ہے۔اس وقت دنیا کی90 فیصدمعیشتیں سست روی کا شکار ہیں۔2019-20ء میں معاشی شرح نمو گزشتہ دس سال میں سب سے کم ہو گی۔ امریکہ اور جرمنی جیسے ملکوں میں جہاںبے روزگاری بالعموم کم رہی ہے وہاں بھی معاشی سرگرمیاں نرم پڑتی جا رہی ہیں۔ ہندوستان اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں پر بھی مندی کے اثرات آنے والے ہیں۔ آئی ایم ایف نے تجارتی جنگ کو عالمی معیشت کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے ، گزشتہ سال کے آغاز میں معیشت کی عالمی سطح پر شرح نمو بلند رہی دو بڑے ملکوں میں تجارتی کشمکش کے نتیجے میں یہ عالمی معیشت اس وقت نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے گزشتہ دنوں اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں امریکہ اور چین کے مابین گزشتہ ڈیڑھ سال سے تجارتی جنگ جاری ہے۔آئی ایم ایف کی موجودہ منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جورجیوا نے یکم اکتوبر کو عہدہ سنبھالا ہے ۔اس سے قبل نگران منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والے ڈیوڈ لیپٹن نے رپورٹ میں اپنے تبصرے میں لکھا ہے، پچھلی کئی برسوں میں تجارت کی عالمگیریت سے دنیا کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ تاہم یہ فائدہ سب کے حصے میں نہیں آیا ہے۔ ڈیوڈ لیپٹن کے مطابق تجارتی نظام کی خامیوں کو درست کرنا ضروری ہے۔
2018ء کے اوائل میں عالمی معاشی نمو میں تیزی دیکھنے میں آ رہی تھی۔ تجارتی جنگ کی وجہ سے اس نے اپنی رفتار کھو دی ہے۔ اس کے علاوہ مالیاتی ڈسپلن اور جغرافیائی، سیاسی غیر یقینی کی صورتحال نے بھی برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ پاکستان جس کی معیشت پہلے ہی کافی مشکلات کا شکار ہے، اس پر اس عالمی معاشی سست روی کے اثرات زیادہ شدت سے پڑے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور تجارتی خسارے کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں سکڑ گئی ہیں، حکومت کی بہتری کے لئے کی گئی کوششیں بھی مفید ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔ آنے والے وقتوں میں پاکستان کی معیشت مزید چیلنجز کا سامنا کرنے والی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہاں آٹو موبیل اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے جو تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہے تھے اب یہ دونوں شعبے بھی سنگین بحران کی زد میں ہیں۔ صنعتی سرگرمیاں جو پہلے ہی سست روی کا شکار تھیں تھم سی گئی ہیں۔ بینکوں سے کمرشل سیکٹر میں جانے والاسرمایہ کافی کم ہو گیا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری جو گزشتہ کئی سالوں سے ہی کم تھی مزید سکڑ گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق طلب میں کمی کی بات ہو رہی ہے۔ طلب کم اس لئے ہے کہ لوگوں کے پاس ذریعہ آمدن ،روزگار نہیں۔ صنعتی تجارتی اداروں میں بھی نوکریاں نہیں ہیں، تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ اکثر تجارتی اداروں نے تو ملازمین کی تنخواہیں کم کر دی ہیں۔ پچھلے 6 سالوں سے کاروباری ادارے ملازمین کی چھانٹی کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس خود اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ عوام کے ہاتھوں میں پیسے دے سکے اور بازار میں طلب پیدا ہو۔ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5 فیصد پر آ گئی ہے جب کہ ستمبر میں بھارت کی 6 فیصد اور مالیاتی سال 2019ء میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 8.1 فیصد ہو گئی ہے۔ بنگلہ دیش کی صنعتی شرح نمو 13 فیصد اور برآمداتی شرح 10.1 فیصد ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے 6 ارب ڈالر کے قرض کی پہلی سہ ماہی کا جائزہ اگر چہ اکتوبر کے آخر میں لیا جائے گا تاہم مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے وفد کے پانچ روزہ دورے کے نتائج مثبت تاثرات کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ حوصلہ افزا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر چہ اسے کوئی بڑی پیش رفت قرار نہیں دیا جا سکتا پھر بھی یہ درست سمت میں آغازِ سفر کی نشاندہی ضرور ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک کی کارکردگی کی تعریف کی گئی ہے کہ مانیٹری پالیسی سے افراطِ زر کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ نیز بینک زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری لانے میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی بھی تعریف کی گئی ہے کہ ٹیکس ریونیو میں اضافے اور ٹیکس گزاروں کے ساتھ معاملات میں یہ ادارہ بہتری کی جانب گامزن ہے ۔مگر یہ چونکہ شروعات ہے اس لیے رواں مالی سال کی لئے جی ڈی پی شرح نمو صرف 2.4 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ البتہ عام آدمی کے لیے یہ خبر دلچسپی کا موجب ہے کہ آنے والے چند ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں کمی کا امکان ہے۔ ہماری قومی معیشت کے لیے خسارے کا بڑا سبب بد انتظامی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ماضی کے برسوں میں مشکل فیصلے نہیں کئے گئے اس کا نتیجہ گردشی قرضوں کی صورت میں نکلا اور ملک مقروض ہوتا چلا گیا۔