گو کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے خلاف سازش کا ایک جال بچھا دیا گیا مگر حقیقت خود کو منوا کر رہتی ہے۔ بہتان بازی کا پروپیگنڈہ حاسدین کا پرانا شیوہ ہے۔کسی انسان کے خلاف بہتان بازی کردار کشی آسان ترین ہتھکنڈا ضرور ہے لیکن اللہ کی عدالت میں ثبوت و شواہد پیش کرنے پڑیں گے۔ کبھی سوچا اس وقت حاسدین کا کیا حشر ہو گا ؟ اسی لئے افواہوں کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔سوشل میڈیا کی افواہوں کو نظر انداز کرنے میں ہی عافیت ہے۔ ملیحہ لودھی کے خلاف بھی افواہوں کا ایک دم منہ کھل گیا۔ غداری کے فتوے صادر ہو گئے۔ڈاکٹر صاحبہ کے معاملات اگر اتنے منفی ہوتے تو پاکستان کے سیکیورٹی ادارے انہیں اتنے حساس عہدوں پر فائز ہونے دیتے ؟ ملیحہ لودھی کو عہدے سے اس وقت ہٹایا گیا جب عمران خان کے دورے کو کامیاب قرار دیا جا رہا تھا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ عمران خان کی ٹیم کے اندر میر جعفر چھپے بیٹھے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے کچھ آستین کے سانپ انہیںکو وزارت اعظمیٰ سے ہٹوا کر خود اس کرسی پر بیٹھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس خواہش کے حصول کے لئے اندرون بیرون اپنے حمایتی بندوں کو آگے لانے کی تراکیب لڑا رہے ہیں حتی کہ اندر کھاتے مولانا فضل الرحمان کے مارچ تک کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کو حکومت میں میر جعفروں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ملیحہ لودھی کا عہدہ سے رخصت ہونے کا تعلق ہے تو ان کے خلاف سازشوں کا گلا ترجمان دفتر خارجہ کے بیان نے گھونٹ دیا۔دفتر خارجہ نے افواہوں کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کر دی کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو عہدے سے ہٹایا نہیں گیا بلکہ ان کی مدت ملازمت مکمل ہوچکی تھی، انہوں نے شاندارانداز میں ملک کی نمائندگی کی۔وزیر خارجہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے پاکستان کی شاندار نمائندگی کی۔ ملیحہ لودھی نے وزیراعظم کے اقوام متحدہ کے کامیاب دورے کے لئے شاندار کام کیا۔یاد رہے کہ چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں ملیحہ لودھی کی جگہ منیر اکرم کو پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کیا تھا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی اس سے قبل دو مرتبہ ریاست ہائے متحدہ میں پاکستان کی سفیر اور برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمشنر بھی رہ چکی ہیں۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی ایک کہنہ مشق سفارت کار ہیں، ان کے والد پاکستانی نیوی میں تھے، وہ پاکستان کے ایک سابق ائیر چیف کی بھانجی ہیں، لندن اسکول آف اکنامکس سے فارغ تحصیل ہیں، 1980ء میں لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد وہاں پڑھاتی رہی ہیں۔ پاکستان کا جمہوریت سے سامنا (Pakistan's Encounter with Democracy) نامی کتاب کی مصنف ہیں۔1984 لندن اسکول آف اکنامکس سے فارغ ہوکر پاکستان آئیں اور دی مسلم نامی اخبار سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا۔ 1994ء سے 1997ء تک تین سال اور پھر 1999ء سے 2002ء تک دوبارہ تین سال امریکا میں پاکستان کی سفیر رہیں، 2003ء سے 2008ء تک پانچ سال برطانیہ میں پاکستان کی سفیر رہیں اور 2015ء سے اب تک اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ہیں، انہیں اس عہدہ پر فائز ہونے والی پہلی پاکستانی خاتون کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ملیحہ کو سب سے پہلے بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں 1994ء میں امریکا میں پاکستان کی سفیر بنا کر بھیجا، پھر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے دوبارہ امریکا میں پاکستانی سفیر کے طور پر تعینات کیا، بعد ازاں برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمشنر مقرر کیا۔ 2015 کو اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ڈاکٹر لودھی کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب بنا کر بھیجا اور 2018 میں اپنے انتخاب کے بعد پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے جہاں کئی ممالک میں پاکستانی سفراء کو تبدیل کیا، وہاں ملیحہ لودھی پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے عہدے پر برقرار رکھا۔ اتنے وزراء اعظم اور جنرل مشرف کے ساتھ ان کا کام کرنا ہی ان کی کامیابی اور کارکردگی کی سند پر مہر تصدیق ہے۔وہ ان پاکستانی خواتین میں سے ہیں جنہوں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام برقرار رکھا۔ آج 50 سال بعد اگر کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچا ہے تو اس میں ملیحہ کا اہم کردار ہے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان اور کشمیر کا بیانیہ مکمل وضاحت سے پیش نہیں کرسکے اور اس معاملے میں متضاد و مایوس کن باتیں کرتے نظر آئے۔ نیویارک میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے الو داعی ملاقات کی۔ ملیحہ لودھی نے افغان امن مذاکراتی عمل پر سیکریٹری جنرل سے تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملیحہ لودھی نے ہرموضوع اور پہلو پر پاکستانی موقف پیش کیا۔سیکریٹری جنرل نے کہا کہ تجربے، کارکردگی سے ملیحہ لودھی کا ملکی ساکھ بڑھانے میں اہم کردار ہے، پاکستان کو ملیحہ لودھی کی خدمات، کامیابیوں پر فخر ہونا چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024