منگل‘ 22 ؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 22 ؍ اکتوبر 2019 ء
مہنگائی پر عوام صبر کریں۔ شاہد آفریدی
ارے ظالم یہ کیا کہہ دیا لالہ آپ نے۔ آپ کو اندازہ نہیں تھا کہ آپ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر آپ کے کروڑوں مداحوں کے نازک دلوں پر کیا گزری ہو گی جو بوم بوم آفریدی کو نرم دل سمجھتے تھے۔ لالہ نکلے تو ہیں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی مہم پر اور اچانک ٹریک سے اُتر کر مہنگائی پر آ گئے۔ کئی لوگ آہیں بھرتے ہوئے اب آفریدی کی تصویر کو گھور رہے ہیں۔ صرف عوام کیوں صبر کریں۔ ان کے پاس بچا ہی کیا ہے۔ 80 فیصد عوام کی بھاگ دوڑ صرف اور صرف روٹی کمانے اور معمولی لباس زیب تن کرنے یا پھر سرکاری بجلی گیس اور پانی کے بل ادا کرنے تک محدود ہو چکی ہے۔ اوپر سے اب اس مہنگائی نے تو روٹی پانی اور یوٹیلٹی بلز ادا کرنے کی سکت بھی چھین لی ہے۔ تو بقول شاعر؎…
رکھا نہیں غربت نے کسی اک کا بھرم بھی
مے خانہ بھی ویراں ہے کلیسا بھی حرم بھی
والی حالت ہو گئی ہے کہتے ہیں خالی پیٹ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ یہ بات بھرے پیٹ والوں کو بھلا کون سمجھائے گا جو چلتے پھرتے شیطان کے کارخانے ہوتے ہیں۔ کاش آفریدی جی حکومت سے یہ مطالبہ کرتے کہ وہ مراعات یافتہ اشرافیہ کی عیاشیاں ختم کر کے غریبوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی یقینی بنائے تو اگلے الیکشن میں ان کی کامیابی یقینی ہوتی۔ مگر وہ بھی غریبوں کو صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔کوئی اشرافیہ کو قربانی کی تلقین کیوں نہیں کرتا۔ کیا ان کو ایثار اور قربانی کی لائن پر لانے کی باتیں کرتے ہوئے زبان جلتی ہے یا ان سب ناصحین مصلحین کا اپنا ذاتی لائف سٹائل اور امارات پسندی ایسا کہنے سے روک دیتی ہے۔
٭٭٭٭٭
یوگنڈا میں 44 بچوں کی ماں پر مزید بچے پیدا کرنے پر پابندی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ حکومت کی طرف سے اتنی تاخیر سے پابندی لگانے کا اب کیا فائدہ۔ یہ 44 عدد بچوں کی تین ٹیمیں تو تشکیل پا چکی تھیں۔ اب چار عدد اور جنم لیتے تو چوتھی ٹیم بھی باآسانی تیار ہو جاتی۔ 48 بچوں کی چار ٹیمیں تیار کرنے کا ایک اور اعزاز اسی خاتون کو ملتا جو ہر پیدائش پر چوکے مارنے کا ایک خوبصورت ریکارڈ بناتی رہی ہیں۔ ایسا صرف امریکہ میں یورپ میں ایک خوبصورت ریکارڈ ہوتا ہے۔ جہاں کی حکومتیں ایسے نادر الوجود لوگوں کی اور ان بچوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ ان کا خرچہ برداشت کرتی اور انہیں سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ اب یوگنڈا کوئی متمول ملک نہیں بلکہ قدیم و جدید تاریخ سے ایک افلاس زدہ بنجر صحرائی ملک رہا ہے۔ وہاں کثرت اولاد اور کثرت ازدواج کے اور بھی بے شمار ریکارڈ پہلے بھی بنتے رہے ہیں مگر وہاں اگتی گھاس بھی نہیں اب معلوم نہیں پابندی کیوں لگائی گئی۔ اگر زیادہ بچے ملکی معیشت پر بوجھ ہیں تو پہلے 4 بچوں کے بعد قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا۔ سارا زور 44 کی گنتی پوری ہونے پر کیوں۔ تصویر میں تو خاتون اپنے بچوں کے جلوس میں نہایت فرحاں و شاداں نظر آتی ہیں۔ بے چارے شوہر نامدار کا پتہ نہیں وہ شاید تھرڈ ٹائم نوکری پر گیا ہو گا۔ کیوں کہ فسٹ اور سیکنڈ ٹائم نوکری کر کے اس قبیلے کا پیٹ پالنا خاصہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اس بے چارے کو تو اب روزی کمانے والی مشین بننا پڑ گیا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
پارلیمنٹ لاجز میں بیوٹی پارلر بنانے کی منظوری
زہے نصیب اب یہ کارخیر بھی پارلیمنٹ لاجز میں انجام پائے گا۔ اس طرح ان ارکان پارلیمنٹ کو راحت ملے گی جو پارلیمنٹ کے کسی اجلاس میں شرکت کے لیے آتے ہوئے بروقت تیار نہیں ہو پاتے۔ اب وہ یہاں بننے والے بیوٹی پارلر میں آ کر اپنا منہ ماتھا درست کرا سکیں گے اور الجھی زلفیں سلجھایا کریں گے۔ ویسے بھی بیوٹی پارلر اب صرف عورتوں کے لیے کہاں مخصوص ہیں۔ اب تو مرد پارلیمنٹیرین بھی اس طرح سج دھج کر اجلاس میں شرکت کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ ہال پر کسی شادی ہال کا گماں ہوتا ہے۔ زرق برق لباس میک اپ سے لدے چہرے قیمتی گھڑیاں، کوٹ ، ٹائیاں اور زیورات لباس سے میچ کرتے ہیں حتیٰ کہ میک اپ بھی اسی رنگ میں کیا ہوتا ہے۔ورنہ ایسا شادی کے علاوہ کہاں ہوتا ہے کہ اتنے لوگ تروتازہ چمکتے دمکتے چہروں اور لباس کے ساتھ یکجا ہوں۔ اس میں وزیراعظم ہوں یا سپیکر وزیر یا ارکان سب کے چہروں کی سرخی و سپیدی میک اپ کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اب حکومت کے اس فیصلے سے ارکان پارلیمنٹ کے میک اپ زدہ چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہو گی۔ گھر سے تیار ہو کر نکلنے کے باوجود وہ پارلیمنٹ میں داخلے سے پہلے ایک مرتبہ ضرور بیوٹی پارلر کا رخ کر کے اپنے سراپا ناز کا جائزہ لے کر رہی سہی کمی پوری کریں گے۔
٭٭٭٭٭
کراچی میں پلاسٹک کے انڈے فروخت ہونے لگے
اصل بات تو یہ ہے کہ یہ پلاسٹک سے بنے میڈ ان چائنہ انڈے وہاں پکڑے گئے اور دو افراد گرفتار ہوئے ورنہ کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔ سوشل میڈیا پر تو کافی عرصہ سے پلاسٹک سے بنے ان مضر صحت انڈوں کی تیاری اور فروخت کے مکروہ دھندے پر شور ہو رہا ہے۔ صرف انڈے ہی کیا یہ دو نمبر یعنی پلاسٹک سے بنی مضر صحت سلاد اور چاول بھی انسانی صحت اور جان کے دشمن مارکیٹ میں لا کر فروخت کر رہے ہیں اور ہمارے پرچون فروش اور عام دکاندار ہی نہیں‘ اچھی مارکیٹ میں بھی یہ اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔ لاہور میں پلاسٹک چاول اور انڈوں کی شکایات باکثرت ہو رہی ہے۔ خواتین حیران ہیں کہ چاول پانی میں بھگونے کے بعد بیٹھتے کیوں نہیں تیرتے کیوں رہتے ہیں اور پکانے کے بعد بھی اکڑے ہوئے کیوں رہتے ہیں۔ اس طرح انڈے تلتے ہوئے اکڑ کیوں جاتے ہیں ان میں عام انڈوں کی طرح نرماہٹ اور زردی میں سنہرا پن کیوں نہیں ہوتا۔ یہ پلاسٹک کی طرح جل کر چپک کیوں جاتے ہیں۔ مگر عوام کی شکایات سنتا کون ہے۔ اب کوئی کوالٹی چیکنگ کمیٹیوں سے پوچھے کہ وہ دکانوں پر جا کر انڈے اور چاول چیک کر کے رپورٹ کیوں نہیں دیتیں۔ پہلے بھی ان چیکنگ کمیٹیوں کی بدولت آج تک کونسی دو نمبر اشیا کا کاروبار بند ہوا ہے جو یہ پلاسٹک کے انڈے اور چاول بند ہوں گے۔ جیب گرم ہونے پر یہ کمیٹیاں یا چھاپہ مار ٹیمیں دو نمبر اشیاء کو بھی اصلی نمبر ون قراردیتی ہیں۔
٭٭٭٭٭