1۔جس طرح انسانی زندگی میں اتار چڑھائو آتے ہیں اسی طرح تاریخ میں قوموں کے عروج اور زوال کے قصے بھی ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ رقم ہوتے رہتے ہیں۔ حالیہ مثال برطانیہ کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ برٹش ایمپائر پر سورج بھی غروب نہ ہوتا تھا۔ مشرق وسطیٰ‘ برصغیر‘ مشرق بعید کے کچھ حصے حتی کہ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ کے دور دراز علاقے بھی ان کی سلطنت میں شامل تھے۔ امریکہ اور کینیڈا نے بھی کافی دیر تک ان کی غلامی کا بوجھ اٹھائے رکھا۔ گولاطینی امریکہ انکی دست برد سے بچا رہا لیکن کسی نہ کسی طور پر فاک لینڈ تک پہنچ گئے۔ ارجنٹائن نے 1982ء میں اس جزیرے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اپنے کزن امریکہ کی خفیہ مدد سے اسے شکست دی۔ اس وقت اس کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر تھی جسے آئیرن لیڈی بھی کہا جاتا تھا۔ محاوراتی لوہے سے بنی ہوئی اس عورت میں بلا کا حوصلہ‘ جرأت اور فہم و فراست تھی۔ اس سے بات کرتے ہوئے مردوںکو بھی پسینہ آجاتا تھا۔
دراصل ایمپائر کا زوال دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا گو جنگ میں انہیں بالآخر‘ امریکہ کی وجہ سے فتح ہوئی لیکن بنیادیں ہل گئیں‘ جب وزیراعظم چرچل ہاتھ کی دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا رہا تھا تو درپردہ اس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں اور جوڑ جوڑ میں درد محسوس ہو رہا تھا اس ہزیمت کے لمحے میں بھی انہوں نے حکمت عملی سے کام لیا اور فرانس کے برعکس‘ کالونیوں کو یکے بعد دیگر آزاد کر دیا۔ تاہم دولت مشترکہ کی صدارت میں ان سے کسی نہ کسی رنگ میں رابطہ قائم رکھا۔
2۔ چرچل کے بعد‘ تھیچر کے علاوہ کوئی STUNNING‘ وزیراعظم نہ آیا سب ڈنگ ٹپائو قسم کے لوگ تھے جنہوں نے اپنا ٹائم کسی نہ کسی طور پر گزار دیا۔ ٹونی بلیئر نے افغانستان اور عراق کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا اسے بش کا ’’پوڈل‘‘ کہا جاتا تھا۔ (پوڈل وہ پنہ کتا ہوتا ہے جسے اکثر میمیں اپنے اوور کوٹ کی جیب میں ڈال لیتی ہیں) وہ جیسا بھی تھا اسے اس حقیقت کا ادراک تھا کہ برطانیہ کافی حد تک ‘ امریکہ کا دست نگر بن چکا ہے۔ گویورپین یونین میں اس نے بادل نخواستہ بامر مجبوری شمولیت اختیار کی لیکن اس کے خلاف فرانس اور جرمنی کی تاریخی مخالفت مکمل ختم نہ ہوئی ۔ انہوں نے اسے اگر نفرت نہیں تو شک کی نگاہ سے ضرور دیکھا۔ اس نے بھی اپنے آپکو مکمل طور پر یونین میں کبھی ضم نہ کیا اور اپنی کرنسی پائونڈ کو یورو سے الگ تھلگ رکھا۔
3۔ نیم دلانہ اقدامات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان سے مقاصد پورے نہیں ہوتے بلکہ بسااوقات خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ برطانیہ کا یورپین یونین میں شمولیت کا واحد مقصد تجارت تھا۔ اتنی بڑی مارکیٹ سے الگ تھلگ رہنا ’’سوداگروں کی قوم کیلئے ممکن نہ تھا۔ گو برطانیہ نے یونین میں شمولیت اختیار کر لی لیکن ایک بے نام قسم کی بے چینی کے حصار میں رہا 27ممالک کی یونین میں جرمنی اور فرانس کی ’’ڈامینیشن‘‘ رہی اور برطانیہ وہ کردار ادا نہ کر سکا جسکا وہ متمنی تھا یا جسے وہ اپنا حق سمجھتا تھا۔
4۔ عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھتے ہوئے سابقہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے الیکشن سے قبل وعدہ کیا کہ جیت کی صورت میں وہ ریفرنڈم کروائے گا۔ آیا برطانیہ کو یونین میں رہنا چاہئے یا خیر باد کہہ دے۔ اس بے چینی کے باوصف اسے اس بات کا پورا اسراک تھا کہ برادری سے نکلنا زیادہ نقصان دہ ہو گا۔ برطانیہ کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی یورپ ہے۔ اس کا خیال تھا کہ قوم کی اکثریت باہر نکلنے کے آپشن کو نامنظور کر دے گی۔ کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے مفادات کا دشمن نہیں ہو سکتا۔ سب اندازے غلط نکلے اور اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک معمولی اکثریت سے لوگوں نے نکلنے کے حق میں ووٹ دیا اس سے فوری طور پر خوف کی ایک لہر سارے ملک میں دوڑ گئی۔ شیکسپیئر نے کہا تھا۔
THERE IS NOTHING MORE TRAGIC IN LIFE THAN THE UTTER IMPOSSIBILITY OF CHANGING WHAT YOU HAVE DONE
معیشت نے جھاگ کی طرح بیٹھنا شروع کر دیا۔ پائونڈ 1.49 سے 1.12 ڈالر پر آگیا۔ تمام بنکوں اور بڑی کمپنیوں نے لندن سے اپنے ہیڈ کوارٹر پیرس اور جرمنی لے جانے کا عندیہ دے دیا۔ نتیجتاً وزیراعظم کو استعفے دینا پڑ گیا۔
5۔ اس کی جانشین ٹریسا مے نااہل نکلی یہ مارگریٹ تھیچر کے بعد دوسرے FEMALE وزیراعظم تھی۔ چونکہ محفوظ حکومت تھی نہ جانے کس زعم میں مڈٹرم الیکشن کروا بیٹھی نتیجتاً اپنی ہی بارہ سیٹیں گنوا بیٹھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ چھوڑ دیتی۔ لیکن اتحادیوں کی مدد سے چمٹی رہی۔ تین سال کی گفت و شنید کے بعد اس نے یورپین یونین سے جو معاہدہ کیا اس کے ڈرافٹ کو پارلیمنٹ نے نامنظور کر دیا۔ ممبران کو اختلاف IRISH BACK STOP پر تھا۔ برطانیہ نے ایک طویل جدوجہد اور خونریزی کے بعد ناردرن آئر لینڈ کے علیحدگی پسندوں سے جو معاہدہ کیا تھا اس کو اس معاہدے کی رو سے زک پہنچنا تھی۔
برطانوی پارلیمنٹ اس میں ردوبدل کے خلاف تھی۔ یورپی ممالک کا استدلال تھا۔ YOU CAN NOT HAVE CAKE AND EAT IT TOO اگر آپ دہرے مز' نہیں لوٹ سکتے! طلاق ضروری نہیں مکمل ہونی چاہئے۔ معاہدے میں اگر‘ مگر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پارلیمان میں ’’میوزیکل چیئرز‘‘ کا کھیل شروع ہو گیا۔ کئی قرار دادیں پیش کی گئیں۔ سب کی سب نامنظور ہوئیں شیکسپیئر کے ڈرامے ہیملٹ کی TO BE OR NOT TO BE کی صورت حال پیدا ہو گئی اس قسم کا مخمصہ برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں پہلے کبھی پیش نہیں آیا۔
DEAL کا معاہدہ بھی نامنظور اور نو ڈیل بھی نامنظور ! مورخین نے اہل کوفہ کے متعلق لکھا ہے THEY KNOW NOT THEIR OWN MIND۔ یہاں بھی بدقسمتی سے کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نے اس گو مگو کی صورتحال میںرہنا پسند نہ کیا اور بے نیلِ مرام استعفیٰ دیکر گھر چلی گئی۔ کنزویٹو پارٹی نے کافی بحث و تمحیص کے بعد ایک ’’مست ملنگ‘‘ کو لیڈر چن لیا جس کا نام بورس جانسن ہے۔ تمام دنیا نے نئے وزیراعظم کو شک اور اضطراب کی نگاہ سے دیکھا۔ امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ واحد شخص تھا جس نے اسے خوش آمدید کہا۔ وجہ ؟ دونوں کی عادات‘ پالیسی اور شکل و صورت کافی حد تک ملتی ہیں۔ ان کا ہیئر اسٹائل اور رنگ ایک سا ہے۔ کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ بغیر کنگھی سے انہیں ماتھے پر چپکا دیا گیاہے۔ شکل دیکھ کر بھی آدمی اکثر صرف دھوکا کھا جاتا ہے۔ اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ جانسن نسبتاً جوان ہے اور حضرت ٹرمپ نے ایک عرصہ ہوا جوانی کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا ہے۔ اس کی حرکات کے تناظر میں سابق صدر کلنٹن کی جنسی ناجوازیاں بادلطیف لگتی ہیں۔ وہ تو گناہ بے لذت‘ کا مرتکب ہوا تھا‘ اس نے ہر گناہ کو قوسِ قزح کی طرح سات رنگ بخشے ہیں۔ وہ منہ چھپاتا پھرتا تھا یہ دندنا رہا ہے۔ ہر دفعہ جب کوئی عورت نیا انکشاف کرتی ہے تو اس کی شہرت کو ’’چار چاند‘‘ لگ جاتے ہیں‘ جدھر جدھر سے بھی گزرا جلوسِ رسوائی کھڑے تھے لوگ دریچوں میں شمع دان کی طرح خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ نے ہر طرح سے جانسن کی مدد اور معاونت کا عندیہ دیا ہے۔
6۔ جانسن شروع ہی سے یورپین یونین چھوڑنے کے حق میں تھا۔ 31اکتوبر آخری تاریخ ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ برطانیہ ہر حالت میں اس تاریخ سے پہلے یونین سے نکل جائے۔ اس کیلئے اس نے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک انتہائی قدم ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024