مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن جماعتیں دھرنا کرنا چاہتی ہیں، لانگ مارچ یا ملین مارچ کرنا چاہتی ہیں تو اس میں حرج کیا ہے۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ احتجاج ووٹرز کا جمہوری حق ہے۔ احتجاج حکومتوں کی عدم توجہ اور بنیادی مسائل کے حل نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ انہی مسائل کے پردے میں سیاست بھی ہوتی ہے اور احتجاجی تحریکیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ انہی تحریکوں میں تحریروں والے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ انہی تحاریک سے معاملات بگڑتے اور بنتے ہیں۔ ایسی تحریکوں کے دوران ہی سیاسی جماعتیں حدود سے تجاوز بھی کرتی ہیں اور سیاسی قائدین پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے ذاتی مقاصد کے حصول میں قومی مفادات کا قتل عام بھی کرتے ہیں۔ عوام کا کندھا استعمال کر کے ذاتی اہداف حاصل کیے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ سڑکوں پر نعرے لگانے، پولیس کی مار کھانے، موسموں کی سختیاں برداشت کرنے والے سادہ لوح اور معصوم عوام آج تک اپنے رہنماؤں کی اندھی تقلید میں چلے جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل نہ ماضی میں کسی نے حل کیے نہ ہی اس لانگ مارچ، دھرنے یا احتجاج سے حل ہونے کا کوئی امکان ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کو غیر سیاسی کہنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ مولانا کا سارا ووٹ بینک مذہبی ہے لیکن ان کے احتجاج کو غیر سیاسی یا غیر جمہوری کہنا مناسب نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ سڑکوں پر نکلنے والے بھی اسی ملک کے شہری ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت ووٹرز بھی ہیں اور احتجاج ووٹ دینے والوں کا بنیادی حق ہے۔
مولانا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے میدان میں آئے ہیں تو یہ ان کا سیاسی و جمہوری حق ہے ان کے ساتھیوں کا سڑکوں پر آنا بھی ویسے ہی عین جمہوری ہے جیسے دیگر جماعتوں کے ووٹرز اور سیاسی قائدین کے ماننے والوں کا ہوتا ہے۔ یہ بحث الگ ہے کہ مولانا مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں یا مدارس کے طلباء کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہاں بات صرف جمہوریت میں احتجاج کی ہو رہی ہے تو جمہوریت شہریوں کو احتجاج کا حق دیتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہری سڑکوں پر کیوں نکل رہے ہیں، کیا وہ حکمرانوں کی نفرت میں سڑکوں پر آ رہے یا انہیں ورغلایا جا رہا ہے، کیا وہ استعمال ہو رہے ہیں یا انہیں زبردستی لایا جا رہا ہے۔ حالات کو دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان کے ماننے والوں کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے ان کا حکم ہی کافی ہے لیکن ان کے ساتھ ملنے والوں کے لیے حالات خود حکومت نے پیدا کیے ہیں۔ دھرنے اور احتجاج کو ہمیشہ طاقت سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے جب حقیقت میں ایسی مشق کو روکنے کے لیے سب سے بڑی طاقت حکومت کی کارکردگی ہوا کرتی ہے۔ آج پاکستان کے عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی اپنی کارکردگی ہو گی۔ جب عام آدمی کے مسائل کم نہ ہوں، اس کے لیے زندگی آسان نہ ہو، اشیاء خوردونوش اس کی پہنچ سے باہر ہو جائیں، صحت کی سہولیات فراہم نہ ہو رہی ہوں، سستی اور معیاری تعلیم عام انسان کی پہنچ سے باہر ہوتی جائے تو مہنگائی کی چکی میں پسنے والا عام آدمی سوائے احتجاج کے اور کیا کر سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت عوام کی زندگی آسان کرنے انہیں آسانی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ کاروبار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں اور ہر گذرتے دن کے ساتھ قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں عام آدمی کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ احتجاج اصل میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بے چینی مصنوعی مہنگائی کی طرح مصنوعی نہیں بلکہ یہ بے چینی حقیقی ہے اور عوام کے پاس اس کے اظہار کا ایک راستہ سوشل میڈیا ہے تو دوسرا ذریعہ سیاسی جماعتوں کے احتجاج کا حصہ بننا ہے۔ حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ ابھی تک اسے سڑکوں پر عوامی غیض و غضب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حکومت اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ اپوزیشن اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہے اور وہ مختلف معاملات میں حکومت کی غلطیوں کو عوامی سطح پر موثر انداز میں اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کے لیے بہتر تھا کہ وہ بکھری اپوزیشن کو طاقت دینے کے بجائے عوام دوست اقدامات سے ان کی زندگی آسان کرتی اور دہائیوں سے ملکی سیاست پر قابض دو بڑی سیاسی جماعتوں کا راستہ روکتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور آج تحریک انصاف کی حکومت سے اس کا ووٹر بھی مایوس نظر آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کو ابتدائی خطرہ سمجھ کر گورننس بہتر کرتے ہوئے حالات کو قابو میں کیا جا سکتا ہے لیکن کیا حکومت میں شامل اہم شخصیات اس کی اہلیت رکھتی ہیں، مکمل طاقت اور اختیار کے باوجود توقعات پر پورا نہ اترنے والے کیا احتجاجی دباؤ میں اچھا کھیلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اس کا فیصلہ تو وقت نے کرنا ہے لیکن ٹریک ریکارڈ کے مطابق یہ خاصا مشکل ہے۔
مولانا فضل الرحمان کے دھرنے، احتجاج اور اس کی تیاریوں میں اندرونی طور پر سب سے زیادہ نقصان کشمیر کاز کو ہوا ہے۔ ایسے وقت میں جب کشمیر کا مسئلہ دنیا میں نمایاں ہو رہا تھا پاکستان اندرونی مسائل کا شکار نظر آتا ہے اور مولانا فضل الرحمان کی سیاست کی وجہ سے حکومت کی توجہ بھی تقسیم ہوئی ہے۔ اس صورتحال کا اصل فائدہ کوئی اور اٹھائے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر قومی اتفاق رائے پیدا کریں اور اہم مسائل پر متحد ہو کر آگے بڑھیں اگر احتجاج جمہوریت کا حسن ہے تو گفتگو، بحث مباحثہ، دلائل اور اتفاق رائے بھی اسی جمہوریت کا حسن ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران سوچیں کہ انہوں نے ملک کو کس طرف لے کر جانا ہے۔ یہ وقت جکد سوچنے اور قومی سوچ کے ساتھ فیصلے کرنے کا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024