پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صاف پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ صاف پانی کی عدم فراہمی کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر ہوتا ہے اور وہ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا آسانی سے شکارہوجاتے ہیں جس سے ان کی نشوونما بری طرح متاثر ہوتی ہے۔پاکستان میں آبادی کا بہت بڑا حصہ زیرزمین پانی کو پینے کیلئے استعمال کرتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے وطن عزیز میں زیرزمین پانی کے ذخائر آلودہ ہونا شروع ہوگئے ہیں اور صوبہ پنجاب بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ آلودہ پانی میں ای کولی وائرس، آرسینک ، فلورائڈ اور نائٹریٹ کی آمیزش پائی جا رہی ہے جو انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر ہیں۔2012-13کے ایک سروے کے مطابق پنجاب کے 13فیصد عوام کو پائپ کے ذریعے پانی فراہم کیاجاتا ہے،38فیصد ہاتھ سے چلانے والے نلکے سے پانی حاصل کرتے ہیں،43فیصد لوگ بجلی والی موٹروں کے ذریعے زیرزمین سے پانی حاصل کرتے ہیں، 2فیصد لوگ کنویں کا پانی استعمال کرتے ہیں جبکہ 4فیصد آبادی دیگر ذرائع سے پانی حاصل کرتی ہے۔اور ایک اور رپورٹ کے مطابق صرف 7برس بعد 2025ء میں پنجاب کے لوگ صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوں گے۔اسی سلسلے میں 2014ء ہی میں اقوام متحدہ کے سروے سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ پنجاب کی 80 فیصد آبادی جو پانی پی رہی ہے، اس میں سنکھیا پایا جاتا ہے جو پینے کے لائق نہیں۔ انہی دکھ درد کے نتیجے میں سابقہ پنجاب حکومت کو عوام پر ترس آیا اور صاف پانی فراہم کرنے کے ایک بڑے منصوبے کو شروع کرنے کے لیے مختلف الاذہان کے ’’سائنسدان ‘‘، دانشور، سیاستدان، بیوروکریٹس اور مشیران کی فوج میدان میں آئی۔ جس سے پنجاب کے لئے دیہاتیوں کے پینے کا پانی تو صاف نہ ہوا البتہ قومی خزانہ دل بھر کر صاف کردیاگیا۔ آئیے اس منصوبے پر دلجمعی کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں اور اپنے ’’دوست‘‘ سیاستدانوں کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہیں کہ نیب جان بوجھ کر سابقہ حکومت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے یا اعلیٰ کارکردگی دکھانے کی کوشش میں ’’مُنی‘‘ کی طرح بدنام ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہم 56کمپنیوں میں سے ہر اُس کمپنی پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے جو سابقہ ادوار میں اعلیٰ ترین ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہوتی رہیں اور قومی خزانے کو کھربوں روپے نقصان پہنچایا جاتا رہا۔
پنجاب کے عوام کا ’’صاف پانی‘‘ کے حوالے سے ’’دکھ درد د‘‘یکھتے ہوئے جب سابقہ خادم اعلیٰ اور اُن کی ٹیم کو پنجاب کے عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کا خیال آیا تو سوچا کہ یہ ’’خدمت‘‘ اپنے ہاتھوں سے ہونی چاہیے۔ تاکہ عوام کو پانی ملے نہ ملے مگر سرمایہ آپس میں تقسیم ہوتا رہے۔ اسی غرض سے پنجاب حکومت نے مارچ 2014ء میں صاف پانی کمپنی قائم کی۔ مجوزہ بجٹ 70 ارب روپے تھا جو بتدریج 190ارب روپے تک جاپہنچا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب منصوبے کی ابھی فزیبلٹی رپورٹ بنائی جا رہی تھی تب ہی اچھی خاصی ’’دہاڑیاں‘‘ لگانے کے منصوبے بھی ساتھ ساتھ بنائے گئے۔ جیسے حکام نے زیرزمین پانی کی جانچ پرکھ کے لئے سروے کرانے پر دو ارب روپے لگا دئیے۔ یہ خطیر رقم جرمنی کی فشنر (Fitchner) اورجاپان کی ٹیکنو کے نام پر دو غیرملکی کمپنیوں کو ادا ہوئی حالانکہ سروے کا یہی کام (PCWR) اور (PCSIR) جیسے ملکی ادارے سے کہیں کم سرمائے پر ہو سکتا تھا، لیکن مقصد زیادہ سے زیادہ سرمایہ خرچ کرنا ٹھہراتھا۔ خیر بقول شاعر حبیب جالب
اک حشر بپا تھا گھر گھر میں، دم گھٹتا ہے گنبد بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا تھا وطن دنیا بھر میں
پنجاب کے ہر منصوبے کی طرح صاف پانی پراجیکٹ کو بھی اس انداز میں پیش کیا گیا جیسے اس منصوبے پر حکمران ’’جنگی بنیادوں ‘‘ پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے صوبہ پنجاب میں مختلف علاقوں کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق تمام اضلاع کو 8پیکجز میں تقسیم کیاگیا ۔پیکج نمبر1میں فیصل آباد، اوکاڑہ، ساہیوال، قصور، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ننکانہ صاحب شامل تھے۔ جس کے لیے کہا گیا کہ ایک کروڑ 34لاکھ افراد پینے کے صاف پانی کی سہولت سے مستفید ہوسکیں گے۔دوسرا پیکج بہاولپور، رحیم یار خان، لودھراں اور بہاولنگر کے اضلاع پر مشتمل تھا جہاں کے لیے عوام کو لالی پوپ دیا گیا کہ جدید ترین فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب سے تقریباً 95لاکھ افراد فائدہ حاصل کرسکیں گے۔تیسرے پیکج میں مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور لیہ کے اضلاع شامل تھے جہاں کے لیے کہا گیا کہ 80لاکھ افراد پینے کا صاف پانی حاصل کرسکیں گے۔چوتھے پیکج میں راولپنڈی، جہلم، اٹک، چکوال اور منڈی بہاؤالدین شامل تھے جہاں 65لاکھ افراد نے پینے کا صاف پانی استعمال کرنا تھا۔ پانچویں پیکج میں سرگودھا، میانوالی، بھکر، خوشاب اور چنیوٹ شامل تھے جہاں پر یہ ’’نعمت‘‘53لاکھ افراد نے حاصل کرنی تھی ۔چھٹے پیکج میں ملتان، وہاڑی، جھنگ، پاکپتن اور خانیوال شامل تھے جہاں کے لیے کہا گیا کہ ایک کروڑ سے زائد افراد اس منصوبے سے فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ساتویں پیکج میں سیالکوٹ، نارووال اور گجرات کے اضلاع شامل تھے جہاں 60لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جانا تھا جبکہ آٹھویں پیکج میں لاہور، گوجرانوالہ، حافظ آباد اور شیخوپورہ کے اضلاع میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا تھا مگر لالچ، ہوس اور اوپر سے نچلے طبقے تک پہنچی کرپشن کی انتہا نے منصوبہ 2، 3سال تک کاغذات سے باہر ہی نہ آنے دیا اور اربوں روپے بھی بٹور لیے۔
ہوا کچھ یوں کہ فوری طور پر پنجاب کے 12اضلاع میں اس کا آزمائشی منصوبہ مرتب کیاگیا اور اپنی محرومیوں سے سسکتے بہاولپور کو ایک بار پھر چناگیایعنی پیکج 2بہاولپور، رحیم یار خان، لودھراں اور بہاولنگر کے اضلاع کو چنا گیا۔ جہاں 84پلانٹ لگانے کا فیصلہ ہوا۔ پسماندگی میں سب سے نیچے قرار پانے والے بہاولپور کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے نام پر ڈرامہ کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ ایک فلٹریشن پلانٹ غریب قوم کو ایک کروڑ27لاکھ روپے میں پڑا۔’’نادرپلانٹ‘‘ کی اس قیمت میں 60لاکھ روپے کا سولر پینل بھی شامل تھا یعنی سورج سے بجلی پیدا کرکے یہ پلانٹ چلائے جانے تھے۔ اس کہانی کا اندازہ صرف اس امر سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ دانیال نے اپنے حلقے میں ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے لئے جو سولر پینل حاصل کئے، اُن کی قیمت پانچ لاکھ روپے تھی۔اسی طرح پانی کو صاف کرنے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا گیا یعنی ریورس آسموسس اور ہائیپر فلٹریشن ٹیکنالوجی سے کیا گیا، اس کی عام مارکیٹ میں قیمت پانچ سے دس لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پندرہ لاکھ مالیت کا پلانٹ غریب قوم کو ایک کروڑ میں فروخت ہوا۔ خریداری کے لئے حکومتی ضابطہ جسے پیپرا رولز کہتے ہیں، کو کھوہ کھاتے ڈالا گیا کیونکہ اس عمل کو اختیار کرنے میں نو ماہ تک کا عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ حکمرانوں کو یہ منصوبہ ’’جنگی بنیادوں‘‘ پرانجام کو پہنچانا تھا اس لیے کسی کو خاطر میں نہ لایا گیا۔ اور پھر شاید حکومت بھی ختم ہونے والی تھی اس لیے سوچا گیا کہ جتنا ہو سکے پیسہ لگا دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جائے تاکہ اگلی حکومت کے آنے تک سب کچھ کھوہ کھاتے ڈال کر پیسہ بھی ہضم کر لیا جائے۔
اب آتے ہیں کہ اس منصوبے پر کام کرنے والوں کی اہلیت پر ، تو اس کے لیے ایک چھوٹی سی مثال کافی ہے کہ ذرائع کے مطابق ایک سی ای او کا بیٹا جو لمز یونیورسٹی میں ابھی تعلم حاصل کر رہا تھا اُسے پراجیکٹ منیجر کا عہدہ دے دیا گیا اور موصوف ڈھائی لاکھ روپے تنخواہ بھی حاصل کرتے رہے۔ عنایات اور ’’نعمتیں‘‘ بانٹنے کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ اگلی کل کی قسط میں مزید تعیناتیوں کا ذکر کروں گا کہ کس کس طرح قومی خزانے پر ہاتھ صاف کیا جاتا رہا۔(باقی آئندہ)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024