لیول فیلڈ پر الیکشن
کئی دن ضمنی الیکشن کا شورو غوغا رہا اور بالآخر اتوار14 اکتوبرکو یہ مرحلہ بھی بخیر وخوبی طے پاگیا۔ نتائج جنرل الیکشن سے خاصے مختلف آئے۔ ان نتائج کی مختلف لوگوں نے مختلف وجوہ یا توجیحات پیش کیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کچھ وجہ بتائی۔ پی ٹی آئی کے دوسرے دوست کچھ اور وجہ بتاتے ہیں اور اپوزیشن والے کچھ اور وجہ بتاتے ہیں۔میرے خیال میں بھی ایک وجہ ہے جو آخر میں لکھوں گا۔ وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے خلاف نتائج آنے کو اپنے کریڈٹ کے طور پر بیان کیا اور فرمایا کہ میری حکومت نے تمام پارٹیوں کو لیول فیلڈ مہیا کیا اور حکومت اور وزرا نے الیکشن میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ ہم انکی اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں اور یہ کریڈٹ انکو دے دیتے ہیں کہ انکی حکومت نے الیکشن میں مداخلت نہیں کی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نتائج جنرل الیکشن سے مختلف کیوں آئے؟پہلی وجہ تو یہی سمجھ آتی ہے کہ اپوزیشن کا یہ الزام درست ہے کہ جنرل الیکشن میں لیول فیلڈ نہ تھا اور سب کے لئے برابر مواقع نہ تھے بلکہ کچھ قوتیں جو عمران خان کو وزیراعظم سلیکٹ کرچکی تھیں انہوں نے انکو منتخب کروانے کیلئے تمام حربے استعمال کئے۔ اب جبکہ کوئی مداخلت نہ ہوئی تو نتائج بہت مختلف آئے خاص طورپرپنجاب میں ۔جنوبی پنجاب میں ڈی جی خان سے پی ٹی آئی اپنی جیتی ہوئی سیٹ ہار گئی۔ وسطی پنجاب میں لاہور میں عمران خان کی سیٹ پر خواجہ سعد رفیق منتخب ہوگئے۔ جہلم میں چوہدری فواد کی چھوڑی ہوئی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر بھی پی ٹی آئی نہ جیت سکی۔ شمالی پنجاب میں اٹک میں بڑا اپ سیٹ ہوا ۔ پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی سیٹ پر ن لیگ کے ملک اسلم سوالاکھ سے زیادہ ووٹ لے کر جیت گئے۔ اگرجنرل الیکشن میں بھی لیول فیلڈ ہوتا یعنی یکساں مواقع ہوتے اور جنوبی وسطی اور شمالی پنجاب میں یہی ٹرینڈ ہوتا تو جنرل الیکشن کا نتیجہ یقینا بہت مختلف ہوتا ۔ پی ٹی آئی کے دوسرے لیڈر جو ٹی وی پروگراموں میں بحث کرتے رہے ہیں وہ الیکشن ہارنے کی وجہ امیدواروں کے غلط چنائو کو بتارہے ہیں خاص طور پر اٹک اور لاہور میں ۔ اٹک میں ق لیگ سے پی ٹی آئی میں آئے ہوئے طاہر صادق نے دو سیٹ جیت کر ایک خالی کی تھی۔ خالی سیٹ پر انکی مرضی کا انکا رشتہ دار امیدوار نہ بن سکا تو پارٹی سیٹ ہار گئی۔ اگر یہی وجہ ہے تو بھی خان صاحب کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ پارٹی الیکشن نہ جیتی تھی بلکہ طاہر صادق جیتے تھے اور طاہر صادق پارٹی ڈسپلن کے پابند بھی نہیں۔ انکے رشتہ دار کو ٹکٹ نہ ملے تو کسی اور کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر نہ جیتنے دیں گے۔ لاہور کی سیٹ پر بھی ق لیگ سے آنے والے ہمایوں اختر کو ٹکٹ دیا گیا اور پرانے کارکن ولید اقبال ٹکٹ سے محروم رہے ۔ یہاں بھی پی ٹی آئی والوں کا خیال ہے کہ ہمایوں اختر کو پارٹی کارکنوں نے سپورٹ نہ کیا۔ پھر ڈسپلن کا سوال ہے یا لیڈرشپ کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا سوال ہے ۔ ویسے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمایوں اختر پرانے کھلاڑی ہیں پیسہ بھی خوب لگاتے ہیں ولید اقبال ان سے زیادہ ووٹ نہ لے سکتے تھے۔ ہمایوں اختر نے اپنے ہارنے کی وجہ حکومت کے ان اقدامات کو بتایا ہے جن کی وجہ سے مہنگائی ہوگئی ان کا کہنا ہے کہ آخری دن خاموشی سے ایک بہت بڑی ووٹر کی تعداد پی ٹی آئی کے خلا ف مہنگائی کی وجہ سے ووٹ ڈال گئی۔ انکو پی ٹی آئی کارکنوں سے کوئی شکایت نہیں۔
ن لیگ ضمنی الیکشن میں جنرل الیکشن کے مقابلے میں بہتر نتائج کو عمران خان کی حکومت کی خراب کارکردگی اور عوام دشمن اقدامات خاص طور پر مہنگائی کو سمجھتی ہے ۔ انکا کہنا ہے کہ 40-50 دن میں عوام کو پی ٹی آئی اور عمران خان کی صلاحیتوں کااندازہ ہوگیا ہے۔ معیشت سنبھالنے کے نام پر وہ جو اقدامات کررہے ہیں اس سے عوام کا جینا محال ہوگیا ہے اور عوام نے فوری طور پر اپنا ردعمل ظاہر کردیا ہے۔معیشت کے بارے عمران خان اور ان کے وزرا چیخ چیخ کر یہ واویلا کررہے ہیں کہ ن لیگ نے بیڑا غرق کردیا اور سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ سرمایہ کاری بالکل رک گئی ہے۔ جب وزیر اعظم یہ کہے کہ میرے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ہے تو کون اپنا پیسہ غرق کرنے کیلئے لگائے گا۔ وزیر خزانہ اسد عمر معیشت کو سنبھالنے کے لئے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اقدامات کررہے ہیں ۔لیکن وہ یہ سمجھ نہیں پارہے کہ یہ ملک کی معیشت ہے کسی کمپنی کی معیشت نہیں ۔کمپنی کی معیشت میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کمپنی منافع میں جائے اور نقصان نہ ہو۔ ملکی معیشت عوام سہولیات دینے کے لئے ہوتی ہے۔ اسد عمر صاحب جہاں نقصان ہوتا دیکھ رہے ہیں عوام سے وصول کررہے ہیں جہاں حکومت سبسڈی دے رہی تھی اسکو بند کررہے ہیں۔ خان صاحب یہ بات آپ کے سمجھنے کی ہے کہ عوام کیلئے معیشت کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بیرونی قرضے کتنے ہیں۔ عوام کے لئے معیشت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حکومت کے پاس کتنے ڈالر موجود ہیں عوام کے لئے سٹاک مارکیٹ اور گروتھ ریٹ کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ عوام کے لئے معیشت کا مطلب ہے ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو کھلانے کیلئے کس بھائو آٹا دال گھی اور چینی خرید رہے ہیں۔ عوام کیلئے معیشت کا مطلب ہے وہ اپنے بچوں کو سکول بھیج سکتے ہیں یا نہیں ۔انکے لئے معیشت کا مطلب صحت کی سہولت اور ٹرانسپورٹ کی سہولت ہے۔عوام کیلئے معیشت کا مطلب ہے کیا وہ بجلی اور گیس کا بل ادا کرسکتا ہے۔ انکو میٹرو اس لئے بُری لگتی ہے کیونکہ وہ شہباز شریف کی بنائی ہوئی ہے۔ خان صاحب عوام کی ایک بڑی تعدادکیلئے یہ ایک بہت باعزت اور سستی سہولت ہے۔ اگر اس کو بند کرنے یا مہنگا کرنے کی کوشش کی گئی تو بڑااحتجاج ہوگا ۔ تین بڑے شہروں میں کاروبار بند ہوگیا تو مشکلات کاسامنا ہوگا اور آخر مے یو ٹرن لینا پڑے گا ۔ پہلے کہا جارہا تھا کہ سالانہ8 ارب روپے حکومت پنجاب سبسڈی دے رہی ہے ۔اب بارہ ارب کہا جارہا ہے ۔اگر بارہ ارب بھی تو عوام کی سہولت کیلئے اس میں نہ کوئی کرپشن ہے نہ کوئی منی لانڈرنگ ۔ حکومت پنجاب کو مشکل کیوں ہے اگر ن لیگ کی حکومت دے سکتی تھی تو آپکی حکومت کیوں نہیں دے سکتی ۔ اگر بہت مشکل ہے تو وزیر اعظم ہائوس سے کفایت شعاری کرکے بچنے والے پیسے عوام کیلئے میٹرو بس کی سبسڈی میں دے دیں۔حکومتوں کو عوام کو سہولتیں دینے کیلئے پیسہ خرچ کرنا ہوتا ہے۔ ہر جگہ نفع نقصان نہیں دیکھا جاتا۔ کل کو پمس یا میو اسپتال لاہور کے بارے میںبتایا جائے گا نقصان میں جارہے ہیں تو کیا بند کردیں گے یا عوام سے پیسے وصول کرنا شروع کردینگے۔
بات ہورہی تھی ضمنی الیکشن میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف نتائج آنے کی۔ جو وجوہات بیان کی جارہی ہیں میں نے لکھ دیں۔ میرے خیال میں ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ عمران خان کوجنرل الیکشن جتوانے والوں نے اسکو بتایا ہے کہ لیول فیلڈ ہو تو پی ٹی آئی کی حیثیت کیا ہے۔ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا۔ اگلا الیکشن وہی جیتے گا جس کے حق میں فیلڈ تیار کیا جائے گا۔