موثرخارجہ پالیسی وقت کی اہم ضرورت
جوش میں ہوش کا دامن سنبھال کے رکھنا چاہیے۔ دنیا ایک جسم کی مانند ہے اور اعضاء ممالک۔تنہا پرواز پر خطربھی ہوتی ہے اور ناممکن بھی۔کامیاب قومیں وہ ہوتی ہیں جو ریاست کے بیانیے کو اہمیت دیتی ہیں۔ بھانت بھانت کے بیانیے ذلت و رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ ملک میں مروج بہت سے تباہ کن نعرے ہیں لیکن میرے خیال میں ملکی مفاد کو سب سے زیادہ نقصان یہی تباہ کن نعرے پہنچاتے ہیں جو امریکہ اور مغربی ممالک کے خلاف لگائے جاتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں، جہاں حقیقت پسند سیاست دان، دنیاوی فائدے پر نگاہ رکھنے والے کاروباری افراد اور باخبر اور صاحبِ بصیرت دانشور دنیا میں طاقت کے مراکز سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے باشندوں کو فائدہ پہنچا سکیں، صرف پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں کچھ طاقتور حلقے ایسی باتیں کرتے اور پھیلاتے ہیں جو ملک کو عالمی سیاسی منظر نامے پر مزید تنہائی سے دوچار کرتے ہوتے ہوئے اس کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ یا تو یہ عناصر اس بات کی تفہیم سے قاصر ہیں کہ اس تنہائی کی کیا قیمت چکانا پڑتی ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اس کے سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
دراصل آج کی دنیا میں کوئی ملک، چاہے وہ کتنے ہی وسائل سے کیوں نہ مالا مال ہو، بھی اپنے ہمسایوں اور دنیا کے صنعتی مراکز سے دوری پیدا کرکے ترقی نہیں کرسکتا۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان ،جسے آج کل شورش پسندی اور معاشی مسائل نے گھیرا ہوا ہے، کو دنیا، خاص طور پر امریکہ اور مغربی طاقتوں کی معاونت کی اْس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ان ممالک کو اس کی ہے۔ چنانچہ ہمیں یہ بات کہنے میں احتیاط برتنی چاہیے کہ دنیا کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس کی بجائے ہمیں عوام کو یہ باور کرانا چاہیے کہ اس وقت پاکستان مسائل کے گرداب میں ہے اور اسے اس سے نکلنے کے لیے طاقتور حلقوں کا ہاتھ تھامنا ہے اور ایسا کرنا ان کی غلامی کرنے کے مترادف نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہاں، یہ سوچ بھی درست ہے کہ جس طرح پاکستان کو ترقی کے لیے ان کی مارکیٹوں تک رسائی، ٹیکنالوجی اور علم کی ضرورت ہے، اسی طرح پاکستان کا استحکام بھی ان ممالک کے مفاد میں ہے۔ چناچہ اس میں دو آرائ نہیں ہو سکتیں کہ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں سے بہتر تعلقات کی ضرورت ہے۔ حقیقت پسندانہ سوچ کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان ان ممالک کے ساتھ مضبوط، گہرے اور وسیع تر تعلقات کی طرف قدم بڑھائے اور ایسا کرتے ہوئے ان حلقوں، جو اس عمل میں رکاوٹ بننے کی کوشش کررہے ہیں، کو خاطر میں نہ لائے۔
ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے کچھ غلط اور بے بنیاد تصوارت عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہمارے حکمران ملک کو امریکہ یا مغربی طاقتوں کی غلامی میں دے رہے ہیں۔ عوام کو اس سلسلے میں فہم و ادراک سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ دو دریاستوں کے درمیان تعلقات مشترکہ بنیادوں پر استوار کیے جاتے ہیں اوران تعلقات کی جہت طے کرنا ان ممالک کے حکمرانوں کا استحقاق ہوتا ہے۔ اب تک امریکہ سے استوار کیے گئے تعلقات مشترکہ مفاد کی بنیاد پر تھے۔ ایسا کرتے ہوئے ان دونوں ممالک نے اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے جو بہتر اقدام سمجھا، وہ اٹھایا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاستوں کے مابین تعلقات حاکم و محکوم کے تعلقات جیسے نہیں ہوتے ہیں کہ ایک ریاست دوسری پر اپنا حکم چلائے ، اور نہ ہی ان کا مقصود کسی ایک ریاست کے مفاد کا تحفظ ہوتا ہے۔
اگر آپ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ اگر ہم امریکہ کے ’’کام‘‘ آئے ہیں تو ہم نے بھی امریکہ سے بہت مفاد حاصل کیا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ریاستوں کے تعلقات میں کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جس کی مدد سے یہ طے کیا جاسکے کہ کس نے کم مفاد حاصل کیا ہے اور کس نے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ ریاستوں کا مختلف حجم اور ان کی مختلف ضروریات ان کے مفاد کو ترازو کے باٹ کی طرح یکساں نہیں رہنے دیتیں۔ چناچہ اس کے لیے بہترین پیمانہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ کیا ہم ان تعلقات سے اپنے لیے بہتری کا سامان پیدا کررہے ہیں، یا کیا ان سے بہتر کوئی اور بھی امکان موجود ہے۔ یادرہے، ریاستوں کے تعلقات جذباتیت سے مبرّا ہوتے ہیں۔ ان میں ہر کسی نے منطقی انداز میں اپنے لیے بہتر امکان کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ سوچ بھی غلطی فہمی پر مبنی ہے کہ امریکہ سے تعلقات استوار کرتے ہوئے پاکستان تاحال اپنے مفاد کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس غلطی کو رفع کرنے کے لیے ہمیں امریکہ سے حاصل کی گئی دفاعی اور معاشی امداد پر غور کرنا ہوگا۔ یہ بات مت فراموش کریں کہ ہم نے کیسے اور کس طرح ’’بم ‘‘ بنانے کی صلاحیت حاصل کی۔
اس بات کا تعین کرنا دشوار ہے کہ اگر ہمیں ان تعلقات کا فائدہ ہوا ہے تو نقصان کا تناسب کیا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی سطح پر بہت سے اقدامات کے غیر متوقع نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ریاستوں کے حکمران بھی قومی مفاد کی جگہ اپنے ذاتی مفاد کے تحت کچھ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ فوجی حکمرانوں کے دور میں کچھ ایسے فیصلے کیے گئے جن کی وجہ سے ہم افغان جنگ میں ملوث ہوگئے اور اس کے نتیجے میں ملک تشدد کی لپیٹ میں آ گیا۔
اس پیچیدہ دنیا میں کسی بھی دوممالک کے درمیان تعلقا ت کی نوعیت سیدھی سادھی اور دوٹوک نہیں ہوسکتی ہے۔ ان میں ریاستوں کے اپنے اپنے مفاد اور عزائم غالب دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارا خطہ، جو مسائل کی آماجگاہ ہے، میں اسلام آباد اورواشنگٹن کے درمیان تعلقات میں کھنچاؤ اور مفاد پرستی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ اس میں بعض اوقات حالات مزید کشیدگی کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طرفین حالات کا غیر جانبدار ی سے جائزہ لینے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تاکہ خطے کو استحکام نصیب ہو اور تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آئے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کواپنے مسائل کا ادراک ہو اور وہ پر مغز مذاکرات اوربامعنی سفارت کاری کے ذریعے عالمی برادری کو اپنی مدد پر آمادہ کرسکے۔ ایسا کرتے ہوئے ہم آنے والے دنوں میں پاکستان کو بہتر خطوط پر استوار کرسکتے ہیں۔ رہی بات انڈیا کی ، یہ بات طے ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ پاکستان نے ہمیشہ انڈیا کے ساتھ بات چیت کا آپشن کھلا رکھا۔ لیکن انڈیا نے ٹھان لی ہوئی ہے کہ میں نہ مانوں۔ اس کی بھی ایک مجبوری ہے۔ اس نے کشمیر ،حیدرآباد دکن ، سیاچین اور کریک پر غاصبانہ قبضہ جمایا ہوا ہے۔ دریاؤں کا پانی روک رکھا ہے۔وہ کب چاہے گا کہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا آپشن کھلا رکھا جائے اور درج بالا پر بحث کا موجب بنے۔ وہ انجان بننے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ بلکہ الٹا پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف کار ہے۔ کبھی ایران کے پاؤںچاٹنے پر معمور ہوتا ہے کبھی افغانستان کے اور کبھی بنگلہ دیش کے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ داخلی انتشار کا شکار یہ مودی دوسروں ملکوں میں بھی انتشار چاہتا ہے۔ اپنی عوام کو دوسروں کی طرف انگلی اٹھا کر زیر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ مذہب کی آڑ لے کر ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔ تاکہ انتہا پسندی کی آڑ میں الیکشن جیت سکے۔ انڈیا کے اندر بھی اعتدال پسند قوتیں مودی کے بیانیے کو رد کر چکی ہیں۔ وہ مذہبی جنونیت سے پاک ملک کے خواہاں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں جونئی حکومت وجود میں آ چکی ہے اس کے ساتھ دوستی کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ مودی نے دوستی کرنا کجا الٹا پاکستان سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔مودی بذات خود ایک کم ظرف اور لو پروفائل آدمی ہے۔ لہذا اس کے لیے مثبت خارجہ پالیسی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ فساد اورلاشوں کی سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے۔