قرض کیلئے آئی ایم ایف کے متبادل آپشن زیر غور، وزیراعظم کا احتساب کیلئے آخری حد تک جانے کا عزم
وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران قرض کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے قرضہ کو 36 ٹریلین تک پہنچادیا، اگلے دو ماہ میں حکومت پیسے نہ لیتی تو ملک دیوالیہ ہوجاتا، آئی ایم ایف کا اصل مسئلہ ان کی شرائط ہیں، آئی ایم ایف آخری آپشن ہے اور مزید ذرائع سے بھی استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چین اور سعودی عرب سے اچھے پیغامات آرہے ہیں، دونوں ممالک سے مالی امداد کے حوالے سے بات ہو چکی ہے۔ پاکستان میں پیسہ تب آئے گا جب استحکام ہوگا، انہوں نے کہا بجلی کی قیمت میں اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، گردشی قرضہ بارہ سو ارب تک پہنچ گیا ہے، موجودہ حالات میںروپے کی قدر گرانے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں، وقت ثابت کرے گا یہ اقدامات عارضی ہیں، منی لانڈرنگ روکنے کے لئے ایف آئی اے کو فعال کیا ہے، دبئی اور برطانیہ میں پاکستانیوں کی دس ہزار جائیدادیں ہیں، دونوں ممالک نے ہمارا پیسہ واپس کرنے کا کہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا آئی ایم ایف کے قرضے کے بعد مزید قرضہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔عمران خان نے کہا کہ عوام پر پہلے ہی بہت بوجھ ڈال چکے ہیں، مزید نہیں ڈالنا چاہتے۔بلا امتیاز کڑا احتساب کریں گے۔ حکومت کسی دبائومیں نہیں آئے گی، کرپشن کے خلاف آخری حد تک جائیں گے۔قومی وسائل کو بے دردی سے لوٹنے والے قوم کے مجرم ہیں، مجرموں کے خلاف اتنے ثبوت موجود ہیں وہ بچ نہیں سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ این آر او ہوگا نہ کسی دبائو میں آئیں گے۔
تحریک انصاف نے انتخابی مہم کے دوران اور اس سے بھی قبل دھرنے کے موقع پر بھی کڑے احتساب کا نعرہ بلند کیا۔ ملک کو قرضوں سے نجات دلانے اور قوی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرکے مضبوط بنانے کی قوم کو امید دلائی۔ مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کا یقین ظاہر کیا جاتا رہا۔ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو معاشی حالت دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔28ہزار ارب روپے قرض کے بوجھ کے اعداد و شمار تو2018ء کے انتخابات سے کئی ماہ قبل زیر بحث تھے اس کے بدترین اثرات اور مضمرات کا ماہرین کو تو اندازہ ہوگا عام آدمی ان سے زیادہ آگاہ نہیں تھا۔قرض اور کرپشن کا باہم براہ راست تعلق ہو نہ ہو مگر کرپشن قرضوں کے بوجھ میں ایک فیکٹر ضرور ہے۔ کرپشن کے حوالے سے ماہرین کئی سال سے خبردار کرتے آ رہے تھے کہ پاکستان میں روزانہ دس ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ کرپشن کے حوالے سے سب سے بڑا بگاڑ ایف بی آر میں ظاہر کیا جاتا رہا۔
تحریک انصاف اقتدار میں آئی، وزیراعظم عمران کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان بھی ہے اس محکمے کے توسط سے سامنے آنے والی رپورٹوں، حالات اور معلومات کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں بہت زیادہ کرپشن ہوتی رہی ہے مگر جو صورتحال اب سامنے آئی ہے کرپشن ہمارے اندازوں اور سوچ سے کہیں زیادہ ہے۔گزشتہ دس سال میں قرض 6ہزار ارب سے بڑھ کر 28ہزار ارب روپے ہو گیا۔ یہ کئی ضروری مدات میں استعمال ہوا ہوگا اور کرپشن کی نذر ہونے کے امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ قرض اتارنے کیلئے کبھی قرض لینا پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت کو صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے آٹھ ارب ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ اصل قرض میں ایک ڈالر کی کمی نہیں ہوگی جس کا بوجھ نوے ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ ریاستی امور اپنے وسائل پر چلانے کی کوشش کی جانی چاہئے تھی۔ قرض بدترین بحرانی حالت میں لیا جانا چاہئے تھا مگر ہمارے ہاں معیشت کا سارا انحصار قرض ہی پر کیا جاتا رہا ہے۔
مشرف کی آمریت کے دور میں آئی ایم ایف سے نجات حاصل کر لی گئی تھی مگر 2008ء کے انتخابات تک ملک 6ہزار ارب روپے کا مقروض ہو چکا تھا۔ اگلے دس سالہ دو جمہوری ادوار میں مجموعی طور پر 22ہزار ارب کے مزید قرضے لئے گئے۔ تحریک انصاف کی پیشرو حکومت نے آنے والوں کیلئے معیشت کس سطح پر چھوڑی اس کا اندازہ نگران حکومت کے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے۔ نگران حکومت کا کام انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کی معاونت اور ضروری ریاستی امور نمٹانا تھا۔ریاستی اخراجات پورے کرنے اور پرانا قرض واپس کرنے کیلئے نیا قرض لینے کا سلسلہ نگران حکومت کے دور میں بھی جاری رہا، فرق صرف یہ آیا کہ مسلم لیگ (ن) اخراجات پورے کرنے کیلئے سٹیٹ بینک سے قرض لے رہی تھی جبکہ نگران حکومت نے کمرشل بینکوں سے قرض لینا شروع کردیا ۔ سٹیٹ بینک کے مطابق نگران حکومت کے پہلے ہفتے کے دوران اخراجات کیلئے کمرشل بینکوں سے 11 کھرب 80 ارب 65 کروڑ روپے قرض لیا۔ نئے قرضے سے حکومت نے سٹیٹ بینک کا 11 کھرب 10 ارب روپے کا قرض واپس کیا اور تقریباً 70 ارب روپے سے دوسرے اخراجات پورے کئے۔ نگران حکومت نے دو ہفتوں میں ہی نئے نوٹ چھاپنے کا ریکارڈ بھی بنا ڈالا۔ اوسطاً روزانہ 20 ارب 23 کروڑ روپے کے نئے نوٹ جاری کئے جس سے زیرگردش نوٹ ملکی تاریخ میں پہلی بار 49 کھرب روپے سے تجاوز کر گئے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ مالی سال کے 11 ماہ کے دوران مجموعی طور پر 5 کھرب 84 ارب روپے کے نئے نوٹ جاری کئے تھے۔
تحریک انصاف حکومت معیشت کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے حتی الوسیع گریز کی پالیسی اختیار کی گئی مگر بالآخر آئی ایم ایف کے ساتھ رابطہ کیا گیا اور وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک وفد آئی ایم ایف کے عہدیداروں سے ملاقات بھی کرکے آیا ہے جس میں قرض کی بنیادی جزیات پر بات ہوئی ہو گی۔ حکومت ان سب کے باوجود بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے میں جلد بازی نہیں کر رہی۔ آئی ایم ایف سے قرض آپشن تو ہے، حکومت اس آپشن کو آخری آپشن کے طور پر اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ آئی ایم ایف کی بجلی، گیس کی قیمتیں بڑھانے اور ٹیکسوں میں اضافے کی شرائط ان حالات میں حکومت اور عوام کیلئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہیں کہ حکومت پہلے ہی جتنا ممکن تھا گیس، بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ کر چکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے بقول حکومت عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالے گی۔ عوام میں مزید بوجھ برداشت کرنے کی سکت بھی نہیں ہے جس کا وزیراعظم کو احساس و ادراک ہے۔ان حالات میں آسان شرائط پر قرضوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کو دھڑا دھڑ نئے نوٹ نہ چھاپنے کا کریڈٹ دینا چاہئے۔چین اور سعودی عرب جیسے مالدار دوست پاکستان کو موجودہ بدترین معاشی بحران سے نکالنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمران خان ملک کو معاشی لحاظ سے مستحکم و مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں جس ملک کی زمینیں سونا اُگلتی ہوں۔ لبا لب بھری سونے کی کانیں ہوں۔ ہیرے جواہرات زمین کے سینے میں دفن ہوں۔ راڈو گھڑیوں اور قیمتی زیورات میں استعمال ہونے والے پتھر کے پہاڑوں اور سیاحوں کیلئے جنت نظیر اور انتہائی دلچسپی کے بے شمار مقامات ہوں۔ اس ملک پر قرضوں کا ہمالیہ جیسا بوجھ بدترین بدانتظامی کا عکاس ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت ان وسائل کو استعمال کرکے معیشت کو مضبوط بنانے کا عزم و ارادہ رکھتی ہے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے راستے بند ہو جائیں تو پاکستان اپنے پائوں پر یقیناً کھڑا ہو سکتا ہے مگر یہ ایک سہانا خواب ہے جس کی تعبیر یقیناً شرمندۂ تعبیر ہو سکتی ہے مگر سرِ دست پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج کی ضرورت ہے جو حکومت کیلئے ایک آزمائش ہے جس میں اعلیٰ دماغوں کی مہارت خلوص نیت سے سرخرو ہوا جا سکتا ہے۔رواں ہفتے سعودی عرب میں سرمایہ کانفرنس ہو رہی ہے جس میں وزیراعظم عمران خان خود شریک ہونگے۔ یہ کانفرنس پاکستان کے معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔
کرپشن پاکستان کے بدترین مسائل میں سے ایک ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی کے خطِ غربت سے نیچے جانے میں کرپشن بھی ایک وجہ ہے۔ لوٹ مار کرنے والوں کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ ان کی لوٹی ہوئی دولت پاکستان میں ہے یا بیرون ممالک میں ہے، ان سے یہ دولت ہر صورت واپس قومی خزانے میں لائی جانی چاہئے۔ اس سے کسی کو اختلاف ہو تو کیونکر ہو۔ حکومت کسی سے قطعی رعایت نہ کرے، مصلحت اور دبائو کو خاطر میں نہ لائے۔ احتساب کا تازیانہ بلا امتیاز برسنا چاہئے۔ بہتر ہے حکمران خود کو پہلے احتساب کیلئے پیش کریں۔ ایسا بے لاگ اور غیر جانبدارانہ احتساب ہو کہ حکومت کے سخت مخالفین بھی اس پر چہ میگوئیاں نہ کر سکیں۔