پیر ‘ 12؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 22اکتوبر 2018ء
ہراسگی کے خلاف مردو ںکو بھی درخواست کا حق ہونا چاہئے: کشمالہ طارق
آجکل ویسے مرد و زن میں مساوات کا دور دورہ ہے بلکہ سچ کہیں تو نہ مردکا پتہ چلتا ہے نہ عورت کا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون۔ جہاں دیکھو مرد بھی عورتوں کے مظالم کا رونا روتے ہیں اور دیگر مردوں کو بھی بغاوت پر اکسا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بھی یہی حالت ہے۔ جہاں دیکھو عورتیں مرد کے مظالم کا دکھڑا سنا سنا کر سب کو آمادہ فساد کر رہی ہوتی ہیں۔ یوں دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ اس فارمولے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تو کشمالہ طارق کی بات میں وزن نظر آتا ہے کہ جس طرح عورتوں کو ہراسگی کے خلاف مقدمے کیلئے درخواست دینے کا حق حاصل ہے‘ بے چارے مردوں کو بھی حق ملنا چاہئے کہ وہ عورتوں کے ہاتھوں ہراساں کئے جانے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکیں‘ لیکن شرطیہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ اجازت مل بھی جائے تو مردوں کی دادرسی نہیںہوگی کیونکہ بہت ہی کم مرد اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ہراسگی کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے یا آواز بلند کریں گے کیونکہ یہ ان کی مردانگی کے خلاف ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں البتہ ’’می ٹو‘‘ کے نام سے ایک مہم چل رہی ہے جس میں بلاتفریق مردوزن اداکار‘ گلوکار‘ پروڈیوسر‘ فلمساز و فلمی دنیا کے دیگر ارکان آجکل اپنی ہراسگی کے خلاف خوب بول رہے ہیںکہ انہیں کس طرح ہراساں کیا گیا۔ اب پاکستان میں اگر کوئی بھولا بھٹکا مرد مقدمہ درج کرانے گیا بھی تو وہ بیگم کی طرف سے زیادہ سے زیادہ مارکٹائی‘ گالی گلوچ اور زیادہ گھریلو کام کاج کرانے کے حوالے سے ہی ہوگا ورنہ گلوکار ظفر علی بھی گلوکارہ میشا کے خلاف ہراسگی کا جوابی کیس کر سکتے تھے۔
٭٭…٭٭…٭٭
50 لاکھ گھروں کی تعمیر‘ پاور کی بجائے کنسٹرکشن سیکٹر میں غیرملکیوں کی دلچسپی بڑھ گئی
ایک وقت تھاجب بجلی کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے ایک حکومت کو عوام کے ووٹوں نے گھر بھجوا دیا۔ اس سابقہ حکومت کے دور میں خدا جانے کہاں کہاں سے مہنگے داموں کرائے کی بجلی گھر لائے گئے جو ایسے بدبخت تھے کہ مہنگے واجبات وصول کرنے کے باوجود بجلی کی فراہمی میں ناکام رہے۔ کہتے ہیں یہ سمندری جہاز والے بجلی گھر منگوانے میں خوب کمشن بھی کھایا گیا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسری حکومت آئی جس نے وعدہ کیا کہ بجلی کی قلت ختم کر دیںگے۔ انہوں نے جیسے تیسے یہ کرکے دکھایا۔ اب مہنگے داموں پاور پلانٹ لگائے یا قرضے لیکر بجلی گھر چلائے‘ اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوئی‘ اب موجودہ حکومت کو بجلی کے بحران کا سامنا نہیں۔ تو نئی حکومت نے کم آمدنی والے بے گھر افراد کیلئے اب سستے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے تو ظاہر اب پاور سیکٹر میں زیادہ منافع نہ ہونے کی وجہ سے ملکی و غیرملکی مالی اداروں نے تعمیراتی منصوبوں میں منافع بخش سرمایہ کاری کیلئے بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے۔ ظاہری بات ہے ’’مایا کو ملے مایا کرکے لمبے ہاتھ۔‘‘ سرمایہ دار اور سرمایہ کار کچھ دیکھ کر ہی مال لگاتے ہیں‘ وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں رقم منافع سمیت وصول ہو۔ تو صاحبو! اب پاکستان میں تعمیراتی دور شروع ہونے والا ہے۔ جو سرمایہ کار 50 لاکھ گھروں کی تعمیر میں حکومت کی مدد کرے گا وہ خوب کمائے گا بھی۔ جیسے رینٹل پاور بجلی گھروالوں نے یا تھر کول والوں نے کمایا۔
ڈبل سوار اور موٹرسائیکل سوار خواتین کیلئے ہیلمٹ لازمی
اب اگر ٹریفک پولیس ملک میں موٹرسائیکل پر پابندی عائد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تو یہ اس کی مرضی مگر جس طرح ہیلمٹ کے استعمال کی سختی موٹرسائیکل چلانے والے کیساتھ ساتھ موٹرسائیکل کے پیچھے بیٹھنے والوں اور عورتوں پر بھی عائد کی جا رہی ہے‘ اس سے معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔ شنید میں آیا ہے کہ موٹرسائیکل پر سوار دوسرے شخص کیلئے بھی ہیلمٹ لازمی قرار دیا گیا ہے تو یہ مسئلہ خراب کرنے والی بات ہے۔ عوام کو بے جا تنگ کرنے کی واردات ہے۔ اگر سفید پوش شخص اپنے 3 عدد بچوں کو سکول چھوڑنے یا لینے جائے گا تو کیا اسے 4 عدد ہیلمٹ ساتھ رکھنے ہونگے یا خریدنے ہونگے۔ ایک برقعہ پوش خاتون کا تو ہیلمٹ پہن کر ویسے ہی دم گھٹنے لگے گا۔ ہمارے ملک میں 6 ماہ گرمی رہتی ہے۔ اور کثرت اولاد کا بھی شوق ہے۔ اتنے سارے بچے کس ناپ کا ہیلمٹ پہنیں گے۔ خدارا حفاظتی اقدامات کا مطلب ان پر عمل کرنے کی بجائے انہیں مشکل بنانا نہ کریں۔ فی الحال ایک دم ٹریفک قوانین کا سارا نزلہ موٹرسائیکلوں پر نہ گرائیں۔ یہ بے چارے پہلے ہی سفید پوشی کا بھرم رکھ رہے ہیں۔ ورنہ پٹرول کی قیمت ان کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ فی الحال صرف موٹرسائیکل چلانے والے کیلئے ہیلمٹ کی اور ٹریفک قوانین کی لازمی پابندی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کم عمر اور بلا لائسنس ڈرائیونگ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں‘ انہیں روکیں۔ ریس لگانے والوں اور ون ویلنگ کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہے۔
٭٭…٭٭…٭٭
ریلوے کی وزارت سنبھالنے کے بعد وزن
15 کلو کم ہو گیا: شیخ رشید
کیا شیخ جی انجنوںکی بجائے اب خود ٹرین کھینچنے لگے ہیں یا دھکا لگا لگا کر مرد بیمار قسم کی گاڑیوں کو منزل مقصود تک پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دو ماہ میں تو اتنا وزن کسی جم میں بھی داخل ہوں تو بھی کم نہیں ہوتا۔ اب شیخ جی یہ نہ کہیں کہ کھانا کم کر دیا ہے‘ چھوڑ دیاہے۔ یہ سب فریب ہے۔ پاکستان میں لاکھوں غریب اچھے خاصے موٹے ہیں حالانکہ انہیں بمشکل ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی دستیاب ہوتی ہے۔ آپ کا تو صبح کا ناشتہ ہی پہلوانوں جیسا ہے۔ جو کھا کر ڈکار مار کر بھی آپ کا ہاتھ نہیں رکتا اور آپ پلیٹ اور پیالہ صاف کرکے اٹھتے ہیں۔ اگر اس بات کامطلب یہ ہے کہ ریلوے کے غم میں جلنے اور کڑھنے سے آپ کا وزن تیزی سے گر رہا ہے تو پھر یہ چہرے پہ لالی کیسی۔ خوش خوراکی کیسی۔ ریلوے جب آپ کے ہاتھ آئی تو کوئی لٹی پٹی بانو نہیں تھی۔ پوری نہ سہی‘ آدھی جھانسی کی رانی تھی۔ خواجہ صاحب سے نہ بنی‘ اب آپ ہی اسے رضیہ سلطانہ بنا دیں۔ اس میں عوام اور ریلوے دونوں کا بھلا ہوگا۔ آ پ نے ڈیم فنڈ ٹکٹ کے ساتھ لازمی کیا‘ وہ بھی ایک روپے آجکل ایک روپیہ ملتا ہی کہاں ہے۔ ریلوے کے بابو روزانہ ہزاروں مسافروں سے 10 کا نوٹ یا پانچ کا سکہ لیکر باقی چینج نہیں ہے کہہ کر رکھ لیتے ہیں۔ یوں ڈیم فنڈز سے زیادہ مال ان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ شاید اس غم میں کہیں شیخ صاحب دبلے تو نہیں ہورہے کہ یہ رقم دوسروں کی جیب میں کیوں جا رہی ہے؟
٭٭…٭٭…٭٭