وزیراعظم بن کر بھی عمران خان اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ افہام و تفہیم ، مصالحت، سمجھوتہ، این آر او جیسے الفاظ ان کی لغت میں دکھائی نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک شور مچانے والے سیاستدان مجرم ہیں۔ احتساب سے بچنے کے لئے مصنوعی بحران کھڑا کر رہے ہیں، دباؤ میں آنے والا نہیں ہوں، بیورو کریسی سے حقائق لینے کے لئے زور لگانا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ حکومتوں کے حقائق دیکھے تو لگتا ہے یہ سیاستدان نہیں مجرم ہیں، کسی دباؤ میں نہیں آؤں گا اور آخر تک جاؤں گا، کسی چور، ڈاکو اور مجرم کو نہیں چھوڑوں گا۔ موجودہ اپوزیشن حقیقی اپوزیشن نہیں، موجودہ اپوزیشن اپنی جائیدادیں بچانے کے لئے اکٹھی ہوئی ہے۔ شہباز شریف نے قومی اسمبلی کا فلور نیب کے میڈیا ٹرائل کے لئے استعمال کیا۔ عمران خان کو علم ہے کہ حکومتی اتحاد ا ور اپوزیشن اتحاد میں 18 نشستوں کا فرق ہے۔ اپوزیشن حقیقی ہے یا غیر حقیقی قومی اسمبلی میں 164 نشستیں تو سنبھالے ہوئے ہے۔ ایوان میں اتنے لوگ کھڑے ہو جائیں تو حکومتی چین اور آرام میں تو خلل پڑ سکتا ہے۔ افغانستان، سری لنکا، عراق، شام، یمن میں حکومتوں کی مخالف قوتیں اپنے وجود کا پتہ دے رہی ہیں یا نہیں دنیا کے کسی بھی خطے میں کبھی بھی کوئی بھی حکومت اپنے ملک کو حکومت مخالف قوتوں سے یکسر پاک نہیں کر سکی۔ امریکی اور افغان حکومت مذاکرات کے لئے طالبان کے پیچھے کیوں دوڑ رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کھلی کتاب ہے، کشمیر میں بھارتی مظالم کس کو دکھائی نہیں دے رہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی والوں کے سر قلم کر دینے سے حسینہ واجد کی اپوزیشن زمین درگور تو نہیں ہو گئی۔ پاکستان میں کونسا مارشل لاء ایسا ہے جو جمہوری قوتوں کا قلع قمع کر سکا۔ بھٹو کی پھانسی سے جیالوں کی پیدائش کا سلسلہ رک گیا تھا؟ 2023ء تک اپوزیشن اپنے وجود کا پتہ دیتی رہے گی۔ یہی تو جمہوریت ہے۔ بار بار دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح سٹاک مارکیٹ کا پھر کریش، سوا کھرب کا نقصان اور ڈالر کا مزید مہنگا ہوتے جانا معیشت کی صحت کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ ابھی تک تو باتوں سے گھر پورا ہو رہا ہے۔ وزیر کہتے ہیں معاشی حالات ٹھیک کرنے کے لئے آئندہ دو تین ماہ مشکل ہوں گے۔ اسد عمر 2023ء تک ایف بی آر کو ملک کے ٹاپ محکموں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت نے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے میں مزید 10 شہروں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، منی لانڈرنگ کی خبروں نے عام شہری کا سر چکرا کے رکھ د یا ہے۔ اب تو کراچی کے مرنیوالے شخص کے بھی بنک اکاؤنٹس سے چار ارب سے زائد کا لین دین سامنے آیا ہے۔ 10 روپے کی روٹی، 15 کا نان کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ ڈالر بحران نے پھل سبزیاں مرغی کا گوشت اور انڈے 30 فیصد تک مہنگے کر دئیے۔ سیالکوٹ کے ایک شہری کے جعلی اکاؤنٹ میں 7 کروڑ 44 لاکھ کا لین دین منظرعام پر آگیا۔ کراچی میں رکشہ ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے ڈھائی ارب کا لین دین ثابت ہوا ہے۔ رقم منی لانڈرنگ کے لئے استعمال ہوئی۔ 450 پاکستانیوں نے دبئی میں جائیادیں خریدنے کا اعتراف کیا ہے۔ منشا بم پھٹے گا تو حیران کن باتیں سامنے آئیں گی۔ مافیا نے سرکاری اراضی کو مال مفت سمجھ رکھا تھا۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو دھچکا لگا ہے۔ قومی اسمبلی کی 11 میں سے پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی کے ہاتھ 6 جبکہ ن لیگ اور اس کی اتحادی ایم ایم اے کو 5 نشستیں ملی ہیں۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں برابر کا جوڑ ہے۔ نواز شریف کے نزدیک ضمنی انتخابات کے نتائج آنے والے وقت کا پیغام ہیں۔ عام انتخابات کی جانچ پڑتال کے لئے بنائی گئی 30 رکنی کمیٹی کا نتیجہ بھی صفر دکھائی دیتا ہے۔ کرپشن کے باب میں چین جیسی سزاؤں پر غور شروع ہوا تو چین کا اعلان سامنے آیا کہ وہ کرپشن کے خلاف پاکستان کے ساتھ ہے۔ چین کابیان حوصلہ افزا ہے کہ آئی ایم ایف قرض کی منظوری سے پاک چین تعلقات پر کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ضمنی انتخابات کے نتائج پی ٹی آئی کے لئے لمحہ فکریہ ثابت ہوئے یا نہیں لیکن عمومی تاثر حوصلہ افزا نہیں ۔کسی بھی دلہن کو جاننے کے لئے سسرال والوں کو پچاس یا سو دن نہیں لگتے اسی طرح حکمران کو سمجھنے کے لئے بھی عوام کو 100 دن انتظار کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ مارشل لاء لگتا ہے تو آناً فاناً کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ ایوبی مارشل لاء لگا تھا تو تاجر کیسے سیدھے ہوگئے تھے۔ عمرانی دور کا کسی سیاسی تو کیا چھابڑی فروش تک نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ سڑکوں پر چالانوں کی ہاہا کار ضرور مچی ہے، چنگ چی والوں کے لئے اہم سڑکیں ضرور ممنوعہ علاقہ قرار پائی ہیں، پولیس کا قبلہ درست کرنے کا بیڑا اٹھانے والے ناصر خان درانی کشتی میں بیٹھتے ہی اتر گئے۔ انہیں اپنے اردگرد گرداب ہی دکھائی دیا۔ عمران خان پنجاب میں ہفتہ دس روزبعد وزراء کی بیٹھک سجاتے ہیں، چائے کا سرکاری خرچہ 50 روپے فی کس منظور ہوا ہے۔ اس میں چائے کے ساتھ دس بیس روپے والا بسکٹ کا پیکٹ ضرور مل جایا کرے گا۔ تاہم منرل واٹر کی اسد عمر نے منظوری نہیں دی، شاید وہ بھی چائے کے 50 روپے سے خریدا جائے گا۔ اللہ تو جس کا رزق چاہتا ہے پھیلادیتا ہے اور جس کا چاہتا سمیٹ دیتا ہے کیوں نہ اللہ سے رزق کے پھیلائو کی دعا کی جائے۔ حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد میں 18 ووٹوں کا فرق رہ گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے 182 جبکہ اپوزیشن اتحاد کے 164 ووٹ ہیں گویا حکومت پل صراط سے گزر رہی ہے۔ عددی اعتبار سے پی ٹی آئی پہلے نمبر پر، ن لیگ دوسرے، پیپلزپارٹی تیسرے اور ایم ایم اے چوتھے نمبر پر ہیں۔ مولویوں کے ساتھ چلنے میں حدود اللہ آڑے آتی ہیں مولوی قاعدے قانون حدود و قیود میں رہ کر چلنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن معاشرہ کی اکثریت آزاد منشن لوگوں پر مشتمل ہے۔ 25 جولائی کو آر ٹی ایس کس نے بند کرایا اس سے متعلق تحقیقات کی جائے کال کرنے والے کا سراغ لگایا جائے تاکہ انتخابات پر اٹھنے والے سوالات کا جواب مل سکے۔
شہبازشریف نے قومی اسمبلی میں الزام لگایا کہ پی ٹی آئی اور نیب میں ناپاک اتحاد ہے۔ انہیں خواجہ آصف کے خلاف گواہ بنانے کی کوشش ہوئی۔ سابق خادم اعلیٰ کو طویل مدت گزر جانے پر عقوبت خانہ دیکھنے کے بعد خیال آیاکہ نیب بلیک میلنگ بیورو ہے۔ شہبازشریف کی نگاہ میں ابھی طے ہونا ہے یہاں قانون کا راج ہوگا یا لاقانونیت کا‘ فاشسٹ کو مسولینی اور ہٹلر کا حشر بھی پتہ ہونا چاہئے۔ میری جھولی میں عوامی خدمت‘ امانت اور دیانت کے سوا کچھ نہیں۔ ادھر اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے پر ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب معطل ہوئے اور تفتیشی ٹیم تبدیل ہوئی ہے۔ دورحاضر کی سیاست کا دوسرا نام یوٹرن ہے۔ شہبازشریف گرفتاری ایشو پر قومی اسمبلی میں (ن) لیگ‘ پیپلزپارٹی‘ یکجا دکھائی دیں۔ خورشید شاہ بھی خوب گرجے‘ کیا پی ٹی آئی کو حکمرانی کی بیماری لاحق ہے۔ خورشید شاہ جانتے ہیںکونسا سیاستدان ایسا ہے جسے حکمرانی کی بیماری لاحق نہیں۔ یہی بیماری ذوالفقار علی بھٹو‘ بینظیر بھٹو‘ آصف زرداری‘ ضیاء الحق‘ پرویزمشرف‘ نوازشریف‘ شہبازشریف کو اقتدار کے مستشفیٰ کی طرف لائی‘ لیکن ایوب خان‘ ضیاء الحق‘ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کیلئے حکمرانی کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ اقتدار کے مستشفیٰ کا مزہ اٹھانے کے بعد جلاوطنی‘ اڈیالہ جیل اور نیب کا عقوبت خانہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسے یوٹرن نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ ہو سکتا ہے قرضے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔ یہ صحیح کہ کوئی سڑک یوٹرن کے بغیر مکمل نہیںہوتی‘ لیکن وزیراعظم کی لغت میں اس کا استعمال کبھی کبھار اور بہت کم ہونا چاہئے۔ ساتھ ہی عمران خان کہتے ہیں عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرنا بھی پڑا تو سخت شرائط کے خلاف مزاحمت کریںگے۔ کیا کسی مقروض میں اتنی سکت ہوتی ہے کہ وہ ساہوکار کی شرائط کے خلاف مزاحمت کرسکے۔ یہ نعرے ہوتے ہیں۔ خودکشی کر لوں گا‘ ضروری نہیں وہ کر لے۔ شہبازشریف بھی یہی کہتے رہے ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو میرا نام شہبازشریف نہیں۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کو صادق وامین قرار دینے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ عمران دوستوں بلکہ محبان عمران کیلئے یہ خوشی کی بات ہے کہ قائد پاکستان صادق و امین ہے۔ دور حاضر میں جھگڑا اسی بات کا تو چل رہا ہے کہ باریاں لینے والے صادق و امین نہیں ٹھہرے تھے ورنہ درجنوں بار پیشیاں کیوں بھگتنا پڑتیں۔ تھر کول منصوبے میں اربوں کا نقصان سامنے آیا۔ سپریم کورٹ نے فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم صادر کیا ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی سرکاری ادارہ اور پراجیکٹ ایسا نہیں جس کے فرانزک آڈٹ کی ضرورت نہ ہو۔ منی لانڈرنگ کیلئے 128 جعلی اکائونٹس کا انکشاف وزیراعظم کی زبانی سامنے آیا ہے۔ اورنج لائن ٹرین 165 ارب کی بجائے 250 ارب میں بننے جا رہی ہے۔ صرف تیل کا درآمدی بل 20 ارب ڈالر تک چلا گیا ہے۔ اتنی نقدی کوئی کہاں سے لائے گا۔ غیر مشروط ادھار کیلئے سعودی عرب کی دکان ہمارے لئے کھلی ہے۔ کمزور معاشی صورتحال میں چین بہتری کیلئے اہم کردار ادا کرے گا۔ چین کے دیئے گئے جن قرضوں پر امریکہ شور مچا رہا ہے ان کی ادائیگی 2022ء میں شروع ہوگی اور پہلے 4 سالوں میں فی سال30 سے 40 کروڑ ڈالر کے قرض کو ادا کرنا ہے۔ عمران حکومت کے قیام کے بعد سے سی پیک کی مخالف امریکی لابی بہت متحرک ہے۔ چین نے جو سی پیک کے منصوبوں میں 50 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہا ہے نہ صرف کرپشن کے خاتمے میں پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے بلکہ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں بھی مدد دینے کا یقین دلایا ہے۔ وزیراعظم نومبر کے پہلے ہفتے میں چین جا رہے ہیں۔ دوستی اور ترجیحات واضح ہو گئی ہیں ہمارے لئے پہلے نمبر پر سعودی عرب اور دوسرے نمبر پر چین ہمارا حامی اور مددگار ہے۔ پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کا حجم 12 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ بجلی پونے چار روپے فی یونٹ مہنگی ہو گئی تو صارفین سے 4 کھرب روپے ماہانہ وصول کئے جائیںگے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024