جال خشوگی آل سعود کا مشیر تھا شطرنج کاایسا کھلاڑی تھا جو شاہی خاندان کی بچھائی بساط پر آل سعود کے مخالفین کو شہ مات دیتا رہااسامہ بن لادن سے لیکر ملا عمر تک سب اس کے منتظر رہتے تھے وہ 7 سٹار صحافی تھا امریکہ میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ جمال میرا دوست تھا رابطے میں رہتا تھا جمال خشوگی پہلے واشنگٹن کے قونصل خانے گیا تھا وہاں سے اسے ترکی کی راہ دکھائی گئی جہاں وہ استنبول کے سعودی قونصل خانے سے لاپتہ ہو گیا چند دن بعد سعودی عرب نے جمال کے قتل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسامہ بن دلان اور شاہی خاندان میں مصالحت کرانے، انٹیلی جنس کرنے اور شاہی خاندان کا فرد نہ ہونے کے باوجود اندر کے راز جاننے والا خشوگی آل سعود کے لئے گھر کا چراغ ثابت ہوا ہے۔جمال خشوگی مدینہ منورہ میں پیدا ہونے اگلے جہان چلاگیا۔
وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید آل نہیان نے خشوگی قتل کیس سے متعلق سچائی جاننے کے لیے شاہ سلمان کی کوششوں اور دلچسپی کو سراہا ہے اور منصفانہ اور قانونی احتساب پر زور دیا ہے۔ مملکت سعودی عرب کی نمائندگی اس کی قیادت کرتی ہے اور یہ انصاف اور شفافیت پر مبنی اداروں کی ریاست ہے۔خشوگی کیس کی تحقیقات کے بعد شاہی فرامین اور اقدامات قانون اور انصاف کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اقدار اور اصولوں کی تائید کرتے ہیں۔‘‘’’بحرین نے سرکاری بیان میں سعودی شاہ کے فرامین اور فیصلوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب بدستور انصاف ، اصولوں اور اخلاقی قدروں کی ریاست رہے گا۔‘‘ ’’مصر نے بھی شاہ سلمان کے فیصلہ کن اور دلیرانہ اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات سے سچ سامنے آئے گا۔‘‘ ’’فلسطین، جیبوتی‘‘ اور ’’یمن‘‘ کی حکومتوں نے بھی سعودی بیان کی تائید کی ’’رابطہ عالمِ اسلامی‘‘ اور اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی )نے بھی شاہی فرمان کی تائید کی۔’’شاہی فرامین‘‘ کے عنوان سے سامنے آنے والے اقدامات میں بتایاگیا کہ ’’سعودی پراسیکیوٹر نے جمعہ کو ابتدائی تحقیقات کے بعد جمال خشوگی کی موت کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ ترکی کے شہر استنبول میں دو ہفتے قبل ہاتھا پائی اور تشدد کے نتیجے میں ان کی موت ہوئی تھی۔اس واقعے میں 18 سعودی شہریوں کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ یہ تمام افراد اس وقت زیر حراست ہیں۔انھیں جمال خشوگی کی موت اور اس کو چھپانے کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے۔‘‘ ’’اس اعلان کے بعد شاہی دیوان کے مشیر سعود القحطانی اور انٹیلی جنس کے نائب سربراہ جنرل احمد العسیری کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے زیر نگرانی جنرل انٹیلی جنس ایجنسی کی کمان کی تنظیم نو کا حکم دیا ہے اور شاہی فرمان کے ذریعے انٹیلی جنس ایجنسی میں کام کرنے والے متعدد افسروں کو برطرف کردیا ہے۔‘‘
سعودی عرب کے وزیر انصاف اور سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین شیخ ڈاکٹر ولید بن محمد الصمعانی نے بیان میں کہا کہ ’’عدالتوں کو جمال خشوگی کیس کی سماعت میں مکمل آزادی ہوگی۔تمام ضروری ضابطوں کی تکمیل کے بعد اس کی سماعت کا آغاز کیا جائے گا۔ سعودی عرب میں عدلیہ کا ادارہ اسلامی قانون کے اصولوں اور عدل کی اقدار کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا اور مملکت سعودی عرب بھی ان ہی اصولوں ، اقدار اور شریعت کے تقاضوں کے نفاذ کو ملحوظ رکھ کر قائم کی گئی ہے ’’سعودی عرب کو میڈیا کے ذرائع سے جارحانہ کردار کا مظاہرہ کرنے والوں کے ذریعے عدم استحکام کا شکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسے لوگ پیشہ واریت کے حامل ہیں اور نہ ان کی کوئی ساکھ ہے۔‘‘
ترکی کے وزیر خارجہ مولود جاویش اوگلو کا کہنا ہے کہ ’’جمال خشوگی سے متعلق ریکارڈنگ کسی دوسرے فریق کو دی اور نہ ہی دیں گے۔‘‘ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ ریکارڈنگ ترکی سے مانگ رہے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کا شکریہ کہ انسانوں کے جرم کی گواہی اب آلات دے رہے ہیں۔ جمال خشوگی کی سمارٹ آئی فون والی ایپل واچ ان کے موبائل سے منسلک تھی جو قونصل خانے کے باہر ان کی متوقع اہلیہ کے پاس تھا۔ جب خشوگی کو قونصل جنرل کے کمرے کے میز پر لٹا کرتشدد کیا جا رہا تھا تو یہ تمام کارروائی مقتول کے ہاتھ پر بندھی ان کی جدید گھڑی کے ذریعے ریکارڈ ہورہی تھی۔اْن کا کہنا ہے کہ ’ حکومت خشوگی کیس سے متعلق جاری تحقیقات مکمل شفافیت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھے گی۔سعودی عرب کے پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ’’قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد وہاں موجود افراد اور خشوگی کے درمیان کسی بات پر تنازع پیدا ہوا۔ اس پر ان میں ہاتھا پائی ہوئی جس کے نتیجے میں سعودی شہری جمال خشوگی مارے گئے۔‘‘ ترک صدر رجب طیب اردگان نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمال خشوگی حجازی کے نام سے جانے جانیوالا اس صحافی شاہی خاندان پر تنقید کرنااور یمن میں جاری خانہ جنگی کے خلاف تھا۔ ستمبر2017ء میں اس نے خود ساختہ جلاوطنی اختیارکرلی۔ سعودی عرب کی پالیسیوں پر اس طرح کی تنقید کرنے والوں کی کمی نہیں۔ خشوگی بھی ایسے لوگوں میںسے ایک تھا اور یہ کوئی ایسا انسان نہیں تھا جس سے بادشاہت کو کسی قسم کا بھی خطرہ ہوتا۔وہ ’العرب نیوزچینل‘ کا ایڈیٹر انچیف اور جنرل مینیجر، سعودی اخبار الوطن کا مدیر بھی رہا۔ خشوگی 13اکتوبر1958میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوا۔ اس کے دادا محمدخشوگی ترکی النسل تھا جنہوں نے سعودی خاتون سے شادی کی۔ یہ کوئی عام شخص نہ تھا بلکہ شاہ عبدالعزیز کا ذاتی معالج تھا۔ جمال خشوگی ایران اسلحہ ڈیل میں شہرت پانے والے سعودی عرب کے نامی گرامی اسلحہ ڈیلر عدنان خشوگی کا بھتیجا ہے۔ یہ دودی الفائد کا فرسٹ کزن ہے جو شہزادی ڈیانا کے قرب کی وجہ سے مشہورہوا اور پھر دونوں ہی پیرس میں کار حادثے میں ہلاک ہوئے۔ جمال خشوگی نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں امریکہ کی انڈیانا سٹیٹ یونیورسٹی سے 1982ء میں ڈگری لی۔ وہ کتاب گھروں سے ہوتا ہوا افغانستان، الجزائر، کویت، سوڈان اور مشرق وسطی میں غیرملکی صحافی کے طورپر معروف ہوا۔ الشرق الاوسط، المجلہ اور المسلمون جیسے مشہور عرب صحافی اداروں کے ساتھ وابستہ رہا۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس نے سعودی انٹیلی جنس ایجنسی اور افغانستان میں موجودگی کے وقت امریکہ کے لئے کام کیا۔
جمال خشوگی کا 1980 سے 1990کے دوران افغانستان میں اسامہ بن لادن سے رابطہ رہا اور اس نے متعدد بار اسامہ بن لادن کے انٹرویو کئے۔ اکثر تورابورا میں ان کی ملاقاتیں رہیں۔ ایک ملاقات اس کی سوڈان میں بھی اسامہ بن لادن سے ہوئی تھی۔ کہاجاتا ہے کہ سعودی انٹیلی جنس ایجنسی نے اسے اسامہ بن لادن پر اثرانداز ہونے کے لئے استعمال کیا کہ وہ سعودی شاہی خاندان سے صلح کرلے اور شاہی خاندان کی مخالفت ترک کردے۔ یہ دعویٰ بھی سامنے آیاتھا کہ خشوگی نے اسامہ بن لادن کو تشدد ترک کرنے پر قائل کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔خشوکی وہ واحد شخص ہے جو سعودی شاہی خاندان کا حصہ نہ ہوتے ہوئے القاعدہ کے ساتھ ہونے والے اس کے رازونیاز کا امین تھا۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ستمبر11 کے امریکہ میں ہونے والے المشہور ’نائن الیون‘ کے بارے میں بھی اس کے سینے میں راز تھے۔ امریکہ اور دنیا کو ہلا اور دہلادینے والے اس واقعے کے بعد خشوگی نے لکھاتھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے اثرات سے بچانا ہوگا جس طرح 15سعودی اس کے زیراثر آئے کیونکہ یہ عمل سیدھی جہنم کی راہ ہے۔وہ امریکہ میں سعودی سفیر کے طورپر شہزادہ الفیصل جب ذمہ داریاں انجام دے رہا تھا تو خشوگی نے میڈیا معاون کے طورپر اس کے ساتھ کام کیاتھا۔ جمال خشوگی واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار کے طورپر پہچانا جاتا تھا۔ اس کے قتل کے بعد واشنگٹن پوسٹ نے اس کا آخری کالم بھی شائع کردیا ہے جو اس نے لکھ رکھاتھا لیکن شائع نہیں ہواتھا۔ عالمی میڈیابتا رہا ہے کہ ’’خشوگی اپنی ترک منگیتر کے لیے کاغذ بنوانے استنبول میں سعودی قونصلیٹ گیاتھا جو اس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔‘‘
خشوگی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ سات منٹ میں اس کی ہلاکت ہوئی۔ جمال خشوگی کی منگیتر نے قرآن حکیم کی آیت ٹویٹ میں لکھی کہ جس کا مفہوم یہ تھا کہ جس نے دانستہ کسی کا قتل کیا، تو قاتل کا ٹھکانہ جہنم ہے۔خشوگی کے دوست نکولس کرسٹوف نے نیویارک ٹائمز میں اپنے کالم میں متعدد مطالبات کئے ہیں۔یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلمان ممالک کہاں کھڑے ہیں ؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024