ایک بڑے آدمی نے ایک چھوٹے آدمی کیلئے بہت زبردست کتاب لکھی ہے۔ یہ جملہ پوری محفل میں بہت پسند کیا گیا۔ ضیا شاہد نے اس کتاب کا نام ”میرا دوست نوازشریف“ اس میں ”دوست“ کا لفظ کئی معنوں میں گھل گیا ہے۔ ضیاشاہد ایک بہادر آدمی ہےں۔ خوف ان کی زندگی کی کتاب میں نہیں ہے۔ ایک اور انفرادیت قابل ذکر ہے کہ اپنے زمانے میں ضیاشاہد وہ واحد ایڈیٹر ہیں جو کئی بیش بہا قابل ذکر کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ ان کی تحریروں میں کئی زمانے بولتے ہیں۔
یہ کتاب بظاہر نوازشریف کے خلاف ہے مگر یہ کتاب ان کیلئے نعمت ہے۔ ایسی کتاب کا اپنے بارے میں نوازشریف تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک بہت شاندار تقریب اس حوالے سے ہوئی۔ اس محفل کی عجیب انفرادیت یہ تھی کہ محفل کے صدر بھی ضیاشاہد تھے اور اس محفل کے صاحب کتاب مہمان شخصیت بھی ضیاشاہد تھے اور اس کے کمپیئر بھی ضیاشاہد تھے۔ سٹیج پر ان کے ساتھ لیاقت بلوچ اور عارف نظامی بیٹھے تھے۔ بعد میں سیاست کے ایک نمائندے ایک لیڈر اور سابق حکمران منظور وٹو بھی آگئے۔
میرے خیال میں مجید نظامی کے بعد ضیاشاہد سب سے بڑے ایڈیٹر ہیں۔ نظامی صاحب نے انہیں کراچی میں نوائے وقت کا ایڈیٹر مقرر کیا تھا۔ ان کی ادارت کی ایک لمبی فہرست کتاب کے آخر میں موجود ہے۔ جو صحافت میں ان کی عظیم خدمات کا آئینہ ہے۔ بڑی منفرد محفل میں بہادراور بے باک لیڈر اور مقرر شیخ رشید راولپنڈی سے سیدھے محفل میں آئے تھے۔ یہ ضیاشاہد سے ان کی محبت کی نشانی ہے۔ شیخ صاحب اور ضیاشاہد کی محبت بھی ایک معرکہ آرائی سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے بہت اچھی اور محبت سے بڑی شعری باتیں کیں جو پاکستان کی سیاست اور پاکستان میں گزرتے ہوئے زمانے کی آئینہ دار تھیں۔ شیخ صاحب گارڈن کالج آف پنڈی میں میرے دوست تھے اور یہ بہت سرشاری کی بات ہے۔ وہ وہاں بھی ایک بڑے سٹونٹ لیڈر کی علامت تھے جسے مثال کے طورپر پیش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ضیاشاہد کیلئے بھی بہت بڑی باتیں کیں۔ شیخ صاحب پورے پاکستان کا اعزاز اور پیمان ہیں اور یہ پنڈی شہر کی خوش قسمتی ہے کہ وہ شیخ صاحب کا شہر ہے۔ ویسے تو سب شہر شیخ صاحب کے ہیں اور دل کا شہر بھی ان کا ہے۔ اتنا بہادر اور بے باک اور زبردست لیڈر میں نے کم کم دیکھا ہے۔ بھٹو کا نام میں لیتا ہوں‘ شورش کاشمیری کا نام شیخ صاحب لیتے ہیں۔ میں شورش کے بیٹے مسعود شورش کی دوستی میں اپنے لئے ایک نعمت کی طرح سمجھتا ہوں۔
شیخ رشید نے جو سیاست میں کیا‘ وہی ضیاشاہد نے صحافت میں کیا۔ آج محفل میں صحافت اور سیاست یکجان ہو گئے تھے۔ انہیں یکجا کرنے کی کوشش ضیاشاہد اور شیخ رشید دونوں نے کی ہے۔ یکتا بھی انہوں نے کیا ہے۔
برادر لیاقت بلوچ نے بھی بہت خوبصورت باتیںکیں۔ اتنی اچھی گفتگو محفلوں میں کرنے والے اب ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ محفل میں شیخ رشید کی باتیں ولولہ انگیز تھیںاور لیاقت بلوچ کی باتیں روح افزا تھیں۔ عارف نظامی نے بہت حقیقت پسندی سے معاملات کو واضح کیا۔ منظور وٹو‘ ایازخان ایڈیٹر ایکسپریس‘ سہیل وڑائچ‘ افتخار فاروق چوہان‘ فضل حسین اعوان‘ لطیف چودھری‘ قیوم نظامی نے بھی خطاب کیا۔
فضل حسین اعوان نے ایک بڑی کتاب عمران خان کے بارے میں لکھی ہے۔ کتاب کے عنوان پر غور کریں میں ہوں عمران خان، فاروق عزیمی نے ضیاءشاہد کی کتابوں کا سٹال لگایا جس کا افتتاح ضیا شاہد نے کیا۔
برادرم علامہ عبدالستار عالم نے اس محفل کے لئے بڑے جذبے سے کام کیا اور قلم فاﺅنڈیشن کے حوالے سے بھی تعاون کیا۔ محفل کی واحد خاتون سپیکر ثوبیہ نورین خان نے غالباً پہلی بار کسی محفل میں گفتگو کی اس نے بہت اچھی گفتگو کی۔ اس نے ضیا شاہد کی ساری کتابیں پڑھی ہیں۔ وہ بڑے جذبے سے بولی اور اپنے کچھ اشعار بھی سنائے۔
دل کو وقف جفا نہیں کرنا
درد کو بے دعا نہیں کرنا
ہر قدم پوچھ پوچھ رکھتی ہوں
یہی کرنا ہے کیا نہیں کرنا
میرے اسلاف نے سکھایا ہے
دوستوں سے برا نہیں کرنا
یہ ایک زندہ محفل تھی جو دیر تک جاری رہی۔ بہت بھرپور ماحول تھا۔ لوگوں نے محفل میں بہت دلچسپی لی۔ یہ بہت اعلیٰ کتاب بہت محبت اور اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ کتاب دیکھنے میں اچھی لگتی ہے اور پڑھتے ہیں اور بھی اچھی لگتی ہے۔
پاکستان میں پانی کے حوالے سے بہت مسائل سامنے آنے والے ہیں۔ پانی کے لئے سب سے پہلے ضیاءشاہد نے آواز اٹھائی پھر محترم چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی ایک مہم چلائی ہم چیف جسٹس کے شکر گزار ہیں اور ضیا شاہد کو بھی سلام کرتے ہیں۔
ضیا شاہد نے بتایا کہ نوازشریف جو میرا دوست تھا۔ انہوں نے ابھی تک اشتہارات کے حوالے سے پیسے ادا نہیں کئے۔ جس کی مالیت 65 لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے۔ ان کی طرف ادائیگی کے لئے بل بھی بھجوایا۔ مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ جبکہ اتنے پیسے تو نوازشریف نے ایک ہی دن میں بنا لئے ہونگے۔ کتاب کا موضوع ”نوازشریف میرا دوست“ ہے مگر ہمیں دوستی کے لئے نوازشریف کے حوالے سے پھر سے سوچنا ہو گا۔ کتاب کے ٹائٹل پر جوتصویر ہے اس میں ضیا شاہد کے چہرے پر ایک بے ساختہ پن ہے اور نوازشریف کے مصنوعی چہرے کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا یا کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ ضیا شاہد نے ایک دلیرانہ اور دوستانہ اسلوب میں تعلقات کی تمام کیفیتوں کو بہت بے باکی سے بیان کیا ہے لگتا ہے کہ اب نوازشریف ضرور ضیا شاہد کے پیسے واپس کر دیں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ دوستی کیا ہے اور دشمنی کیا ہے۔ یہ بہت خطرناک دوستی اور دشمنی ہوتی ہے کون دشمنی میں دوست اور دوستی میں دشمنی کے نتائج کے بارے میں کتنا صبر کر سکتا ہے۔ میں پاکستان کے لئے دعا گوہوں بلکہ چیف جسٹس کی دعاﺅں میں اپنی التجا کو شامل کرتا ہوں اور ضیا شاہد کو بھی ساتھ شامل کرتا ہوں۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024