پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے گذشتہ اجلاس میں حکومت کو اپنے وجود کا احساس دلایا کہ انہیں نیب کے قانون کے تحت آشیانہ ہائوسنگ سکیم میں اختیارات کے غلط استعمال میں گرفتار کر لیا گیا اگلے ہی روز مسلم لیگ(ن) اور ایم ایم اے کے ارکان قومی اسمبلی نے سپیکر اسد قیصر کے پاس ریکویذیشن جمع کرادی ممکن تھا کہ حکومت میاں شہباز شریف کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی راہ میں حائل ہو جاتی لیکن سپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم سے ملاقات کر کے انہیں ’’ پروڈکشن آرڈر‘‘ جاری نہ کرنے کے مضمرات سے آگاہ کر دیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں میاں شہباز شریف کی ’’دبنگ‘‘ انٹری نے حکومتی بنچوں کو پریشان کر دیا۔ سپیکر کے فراخدلانہ طرزعمل سے کوئی ہنگامہ ہوا اور نہ ہی اپوزیشن قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی میں ’’مزاحم ‘‘ ہوئی سپیکر جہاں میاں شہباز شریف کا پروڈکشن آرڈر جاری کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا وہاں انہوں نے میاں شہباز شریف کو ایوان میں کھل کر بات کرنے کا موقع دے کر ایوان کا ماحول خراب ہونے سے بچا لیا جس کے باعث ایوان میں ممکنہ ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی ۔ اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور اس روز میاں نواز شریف بھی اسلام آباد میں موجود تھے ۔میاں شہباز شریف اور سید خورشید شاہ کی تقاریر ٹیلی ویژن پر دیکھیں ۔میاں شہباز شریف نے پارلیمنٹ ہائوس میں آمد کے بعد سید خورشید شاہ ، اختر مینگل اور مسلم لیگی رہنمائوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جب قومی اسمبلی کے ہال میں میاں شہباز شریف کی ’’انٹری‘‘ ہوئی تو ان کے استقبال کا منظر دیدنی تھا مسلم لیگی ارکان نے ڈیسک بجا اور نعرے لگا کر ان کا شاندار استقبال کیا جبکہ ارکان نے نواز شریف اور شہباز شریف کی تصویروں والے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔ سیاہ پٹیاں باندھ کرارکان نے ’’شیر شیر اور دیکھو دیکھو کون آیا ‘‘کے نعرے بھی لگا رہے تھے ۔ نعروں کی گونج میں میاں شہباز شریف نے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور ان عوامل پر کھل کر بات کی جو ان کی گرفتاری کا باعث بنے انہوں نے کہا’’ نیب نیازی ناپاک اتحاد قائم ہو گیا ہے انہوں نے انکشاف کیا کہ نیب انہیں خواجہ آصف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانا چاہتی تھی لیکن انہوں نے اسے مسترد کردیا انہوں نے بتایا نیب ان کے چین اور ترکی میں اثاثوں کے بارے میں سوالات کرتا رہا انہوں نے پاکستان کے دوست ممالک کے خلاف کاروباری الزامات کی تحقیقات کے لئے ہاؤس کی مشترکہ کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن حکومت نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا ،انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ’’ حکومت تمام الزامات کی تحقیقات ایوان کی کمیٹی سے کرا لے اگر کوئی الزام ثابت ہو گیا تو میں ہمیشہ کے لئے سیاست چھوڑ دوں گا،اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے بھی مستعفی ہو جاؤں گا۔ ‘‘، قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے ہنگامی بنیادوں پر میاں شہباز شریف سے پارلیمنٹ کے کمیٹی روم نمبر2میں سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز کی ملاقات کا اہتمام کرایا اگرچہ یہ ’’آف کیمرہ‘‘ ملاقات تھی لیکن اس ملاقات کی چیدہ باتیں منظر عام پر لانے کی اجازت دے دی گئی یہ ملاقات کم و بیش دو گھنٹے تک جاری رہی میاں شہباز شریف اخبار نویسوں کے تند و تیز سوالات کا پر اعتماد لہجے میں سوالات کا جواب دیتے رہے تاہم انہوں نے عام انتخابات میں ’’خلائی مخلوق ‘‘ کی مداخلت کے بارے میں کئے گئے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا۔ البتہ جب ان سے میاں نواز شریف اور ان کے ’’بیانیہ ‘‘ میں فرق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ مسلم لیگ ن کے قائد ہیں ، ہم ان کے ساتھی ہیں‘ ان کے بیانیے سے پارٹی کے کسی رہنما کو کوئی اختلاف نہیں، سیاسی جماعتوں میں جمہوری طریقے سے اختلاف رائے کیا جاتا ہے۔ اکثریت جو فیصلہ کرتی ہے اسے سب قبول کرتے ہیں۔ پارٹی میں ایک دوسرے سے سے مختلف نکتہ نظر جمہوریت کا حسن ہے لیکن جب پارٹی کوئی فیصلہ کر لے تو پھر وہ سب کا ایک ہی موقف ہوتا ہے جب ان سے چوہدری لطیف کی کمپنی کو بلیک لسٹ قرار دینے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ اس کمپنی کو اورنج ٹرین میں ٹھیکے کے دوران غیر معیاری کام کرنے پر بلیک لسٹ کیا گیا لیکن اسی کمپنی کو پشاور میں میٹرو بس کی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا گیا‘‘ ایک صحافی نے ان سے نیب کو ختم کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نیب کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے تاہم اسے سیاسی مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے کے لئے اصلاحات کی جانی چاہئیں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جہاں تک سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے وعدہ معاف گواہ بننے کا تعلق ہے تو نیب نے مجھ سے اس بارے کوئی بات نہیں کی،فواد حسن فواد سے نیب کے دفتر میں گرفتاری سے کچھ عرصہ پہلے ایک ملاقات کرائی گئی تھی جس میں میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ آشیانہ ہائوسنگ سکیم کے کنٹریکٹر کے خلاف انکوائری کا حکم میں نے خود دیا ہے ، انکوائری کے معاملے پر فواد حسن فواد پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جب ان سے ملک میں نظام حکومت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ اس وقت دنیا میں نیلسن منڈیلا اور طیب اردگان کے ماڈل موجود ہیں، میری رائے میں طیب اردگان کا ماڈل سب سے بہترین ہے‘‘ راقم السطور نے ان سے عام اور ضمنی انتخابات کے نتائج کے بارے میں ا ستفسار کیا تو جواب دینے سے پہلے اپنے دوست چوہدری نثار علی خان کی خیریت دریافت کی اور کہا کہ چوہدری نثار علی خان کا لندن کامیاب آپریشن ہو گیا ہے ان کا کیا حال ہے؟ میں نے ان کو آپریشن ہونے پر گلدستہ بھجوایا تھا ‘ دریافت کریں انہیں ملا ہے کہ نہیں؟چوہدری نثار علی خان آج کل کہاں ہیں؟ آپ کا ان سے رابطہ ہے تو ان کو میرا سلام پہنچائیں جس پر میں نے انہیں بتایا کہ’’ چوہدری نثار علی خان لندن سے واپس آ گئے ہیں اور گزشتہ رات ہی ان سے ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی ہے‘‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف کو نیب کی قید میں بھی چوہدری نثار علی خان کی یاد ستا رہی ہے ایک اینکر پرسن نے ان سے ازراہ مذاق دریافت کیا کہ کیا آپ کو نیب نے کلین چٹ دینے کیلئے گرفتار کیا ہے تو میاں شہباز شریف نے برجستہ جواب دیا کہ’’ اگر آپ مجھے نیب سے کلین چٹ دلوا دیں تو میں آپ کو مٹھائی کھلوائوں گا‘‘ صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کے بعد نیب میاں شہباز شریف کواپنی تحویل میں لے کر لاہور لے گیا ،قومی اسمبلی کے سپیکر نے ریکویذیشن پر طلب کردہ اجلاس ایک روز تک جاری رکھنے کے بعد غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا تو اگلے روز اپوزیشن نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے معاملہ پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئے ایک اور ریکویذیشن جمع کرادی۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024