کھیل کے پردے میں ایک اور کھیل
ہماری زبان میں مالٹا ایک ترشاوہ پھل کو کہتے ہیں جو سردیوں میں پوری طرح پک کر تیار ہوتا ہے اور کھانے کیلئے میسر ہوتا ہے لیکن ہماری بھوک کچھ اتنی بڑھ چکی ہے اور ترشاوہ پھلوں کے باغات کے ٹھیکیداروں کی پیسہ کمانے کی لالچ بھی اس رفتار سے سفر کر رہی ہے کہ وہ مالٹوں کی فصل کو کچا توڑ کر منڈی کے حوالے کر دیتے اور عوام بے تکلف ہو کر اس بے ذائقہ تلخ و ترش پھل کو کھا جاتے اور کوئی شکایت بھی زبان پر نہیں لاتے۔ صحیح اور ذائقہ دار ترشاوہ پھل دسمبر اور جنوری میں دستیاب ہوتے ہیں لیکن آپ آج اکتوبر میں بھی مالٹے کے ڈھیر منڈیوں میں دیکھتے ہیں جو محض پھلوں کا ضیاع ہی ہے۔ اسرائیل کا مالٹا پھل جافہ ایک معمولی ذائقہ رکھنے والا مالٹا ہے اور پاکستان کے مالٹے کا کوئی مقابلہ بھی نہیں کرتا لیکن اسرائیلی باغبان وقت پر پھل کو برداشت کرتے ہیں اس کی خوبصورت پیکنگ کرتے ہیں اور عرب منڈیوں میں جافہ بڑا کثیر زرمبادلہ کماتا ہے۔ پاکستانی قوم کو نہ کھانے کا سلیقہ آتا ہے اور نہ ہی بھوکا رہنے کا۔ خدا جانے یہ قوم کون سی مٹی کی بنی ہے اور اس کی منزل کونسی ہے؟ اب اگر مالٹوں کاذکر چھڑ گیا ہے تو ایک یورپی جزیرہ نما ملک مالٹا کا ذکر بھی اس کالم میں کر دیا جائے تو اسے موزوں ہی تصور کیا جائے گا ۔ مالٹا ایک جزیرہ ہے اور اٹلی کے پڑوس میں ہے۔ کسی زمانے میں جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی تو یہ ملک مالٹا اس حوالے سے ہندوستان کے مسلمانوں میں بہت مشہور ہوا کہ اس وقت کی ایک مشہور مسلم ہستی شیخ الہند مولانا محمودالحسن کو انگریز حکومت نے گرفتار کر کے اسی جزیرے میں قید کر دیا اور صاحب موصوف اسیر مالٹا کے لقب سے ملقب ہوئے۔
ہمارے خیال میںدنیا بھر کو پانامہ لیکس نے جتنا شعور دیا ہے اتنی آگاہی اور کسی راز کے افشا ہونے پر دنیا کے عوام کو نہیں ملی۔ پانامہ جنوبی امریکہ کا ایک پسماندہ ملک ہے اور اس کا تعارف وہ پانامہ نہر ہے جو امریکہ کے حکم پر کھودی گئی حالانکہ پانامہ نہر کے حق میں پانامہ کی حکومت نہیں تھی لیکن امریکہ نے طاقت سے پانامہ کی حکومت کو صرف ایک ہفتے میں تبدیل کیا اور پانامہ کی زمین پر نہر کھود کر بحر اوقیانوس کو بحرالکاہل سے ملا دیا تاکہ امریکی تجارتی بیڑے کا سفر کم ہو۔ اسی پانامہ ملک میں ایک تنظیم نے دنیا بھر کی حکومتوں کا یہ حساب خاموشی سے رکھا کہ حکمران اپنے ملک کے خزانوں سے دولت کو کیسے چراتے ہیں اور اپنے ملک پر قرضوں کا بوجھ لاد کر خود کیسے امیر بنتے ہیں جب پانامہ کا یہ راز افشا ہوا تو دنیا بھر میں ایک تھرتھلی مچ گئی اور خصوصی طور پر دنیا کے عام غریب عوام کو یہ سچائی معلوم ہوئی کہ دنیا بھر کے حکمرانوں کا اصل اور حقیقی کاروبار صرف پیسہ چرانا اور اپنے ہی ملک کے عوام میں غربت کو قائم رکھنا ہے تاکہ مسائل کو غربت بڑھاتی رہے اور ان مسائل کو حل کرنے کے نعرے بلند کرکے مسائل پیدا کرنے والے اور وسائل ہڑپ کرنے والے حکمران بار بار ملک پر واپس آ کر حکمرانی کرتے رہیں۔ ملک مالٹا میں بھی پانامہ لیکس نے ہلچل مچائی وہاں ایک سینئر صحافی خاتون مسز ڈیفن کرونا نے ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ان آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی جن کے ذریعے ان لوگوں نے ملک کا پیسہ چرایا جب مسز کرونا کی تحریروں نے قومی رہنماؤں کا حقیقی چہرہ مالٹا کے عوام کے سامنے رکھا تو خاتون صحافی موصوف کو دھمکیاں ملنے لگیں۔ جب یہ صورتحال پیدا ہوئی تو مسز کرونا نے انتظامیہ کو بار بار یاد دلایا کہ اس کی زندگی خطرے میں ہے لیکن اس خاتون کے تحفظ کی طرف کوئی سنجیدہ توجہ نہ دی گئی اور اس خاتون کی گاڑی کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا کر اس بہادر خاتون کو قتل کر دیا گیا۔
آج جس زمانے میں ہم اور آپ زندہ ہیں اس دور نے بڑی حیرت ناک روش اختیار کر لی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے اقتدار اور اپنی سماجی حیثیت کا سہارا لے کر ملک کا خزانہ چرایا اور عوام کو غربت کا قیدی بنا دیا وہ تمام لوگ دنیا میں طاقتور ہیں اور وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دولت چوری کرنا ان کا حق ہے اور پانامہ لیکس اور اس حوالے سے کوئی بھی کارروائی فی الحقیقت ان کے حقوق کے خلاف ایک سازش ہے۔ اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی کرپشن کے خلاف اگر کوئی کارروائی ہو بھی رہی ہے تو کارروائی کرنے والے ادارے سخت مشکل کا شکار ہیں اور ان کو کرپٹ گروہوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے جبکہ ان اداروں کے ایسے دوست بہت ساری مصلحتوں کا شکار ہو گئے ہیں جو محتسب اداروں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ مسلم دنیا میں ان کے مخالفین نے ایک حکمت عملی کے تحت کام کیا اور ایک عرصہ دراز سے مسلم ممالک میں ایسے حکمران آگے لائے جاتے رہے جو خاندانی بادشاہتوں کیلئے تو کام کرتے رہے لیکن اپنے ممالک کے عوام کے ہمیشہ مخالف رہے۔ اسلامی ممالک میں کبھی جمہوریت کے نام پر اور کبھی بادشاہت یا آمریت کے نام پر ایک ایسا نظام کارفرما رہا جس نے مسلمان ممالک میں صرف انتشار ہی پھیلایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج شام اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ ان دونوں ممالک کی افواج کو تباہ کر دیا گیا اور ان ممالک کے عوام کا قتل عام جاری ہے جبکہ دو اور مسلم ممالک کو ایک برے انجام تک پہنچانے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ ہمارا خیال ہے ۸۱۰۲ء برصغیر کیلئے بہت اہم سال ہے اور اس سال میں برصغیر کے ممالک کی مزید جغرافیائی تقسیم ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو عدالتوں میں خاندانوں کو بچانے یا مٹانے کی جنگ جاری ہے اسے فوراً ختم کرنا ہو گا۔ ورنہ اس لڑائی کا اثر ریاست کی سا لمیت کے کردارادا کرے گا۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے بلکہ اس کھیل کے پیچھے ایک اور کھیل کھیلنے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭