گذشتہ سال جولائی میں گاﺅں زووی سوگی میں شام ڈھلتے ہی دن بھر کے کام کے بعد مزدوروں کا ایک گروپ اکٹھا ہوا۔ ان میں سے بعض نے اپنی روزی روٹی کے لئے لکڑیاں فروخت کی تھیں جبکہ دیگر کرومائیٹ کی مقامی کان میں مزدوری کے بعد فارغ ہوئے تھے۔ اپنے کام کاج سے فراغت کے بعد یہ سب معمول کے مطابق چائے کے لئے اکھٹے ہوئے تھے۔ ڈرون طیارے آسمان پر چکر لگا رہے تھے لیکن پاکستان کے علاقہ شمالی وزیرستان میں یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی کیونکہ امریکہ کا ٹارگٹڈ کلنگ پروگرام شروع ہونے کے بعد سے اس علاقہ میں گذشتہ دس سال کے دوران کسی بھی دیگر علاقے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ڈرون حملے ہو چکے ہیں لیکن یہ شام بہت مختلف تھی۔ اچانک میزائلوں کی ایک بوچھاڑ نے اس ٹینٹ کو نشانہ بنایا جہاں یہ لوگ جمع تھے۔ اس حملے میں فوری طور پر 8افراد مارے گئے۔ بکھرے انسانی اعضاءآنسوﺅں اور افراتفری کے دوران بعض دیہاتیوں نے کوشش کی کہ اس مقام تک پہنچ سکیں جہاں ایک ٹینٹ تھا تاکہ حملے میں بچ جانے والوں و تلاش کیا جا سکے لیکن عین اس وقت میزائلوں کا دوسرا حملہ ہوا۔ اس شام ان ڈرون حملوں میں مجموعی طور پر 18افراد مارے گئے جن میں ایک 14سالہ لڑکا صالح خان شامل تھا جو مقامی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتا تھا۔
ان ڈرون حملوں کے بارے میں میڈیا نامعلوم سرکاری ذرائع کے حوالے سے جو رپورٹ دے رہا تھا اس میں کہا گیا کہ حملوں میں مارے جانیوالے جنگجو تھے جن کا تعلق طالبان سے تھا لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان حملوں کے بارے میں جب جامع تحقیق کی تو پتہ چلا کہ حملوں کا نشانہ بننے والے اگر تمام نہیں تو بیشتر مزدور تھے۔ وہ کسی جنگ میں ملوث نہیں تھے اور امریکہ کے لئے کوئی ناگزیر خطرہ بھی نہیں تھے۔ لہٰذا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مزدور امریکہ کے ہاتھوں غیرقانونی طور پر مارے گئے ہیں لیکن اب تک کسی کو اس کا ذمہ دار نہیں قرار دیا گیا۔ اس کی وضاحت، معذرت یا متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یا معاوضے کی ادائیگی تو ایک طرف امریکی حکومت نے حملوں میں ہونے والی ان اموات کو تسلیم تک نہیں کیا۔ بدقسمتی سے یہ کوئی واحد کیس نہیں ہے۔ امریکی ڈرون پروگرام پاکستان اور باقی دنیا میں انسانی حقوق کا ایک جواب طلب ایشو بن چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ”کیا اگلا نمبر میرا ہو گا“ کے عنوان سے پاکستان میں ڈرون حملوں پر ایک جامع رپورٹ پیش کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کے تناظر میں اس موضوع پر اب تک جاری ہونے والی انتہائی جامع مطالعاتی رپورٹوں میں سے ایک ہو گی۔ یہ رپورٹ خطرناک، پیچیدہ اور انتہائی سیاست زدہ ماحول میں بڑی عرق ریزی سے تحقیق کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے ان 45 امریکی ڈرون حملوں کا جائزہ لیا ہے جو جنوری 2012 سے اگست 2013 کے درمیانی عرصے میں شمالی وزیرستان میں کئے گئے ہیں۔
ہماری تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ پاکستان میں غیر قانونی ہلاکتوں کا مرتکب ہوا ہے ان میں سے بعض تو جنگی جرائم یا ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایک اور کیس جس کا ذکر ہم نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے وہ ڈرون حملے میں اپنے پوتے پوتیوں کے سامنے ماری جانے والی 68 سالہ ممانا بی بی کا ہے۔ ڈرون حملے کے وقت وہ اپنے خاندان کے کھیتوں سے سبزیاں اکٹھی کر رہی تھی۔ یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ اسے ایک جنگجو قرار دینے کی غلطی آخر کیونکر ہو سکتی ہے۔
ہماری رپورٹ میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے خفیہ غیر جواب دہ ڈرون پروگرام کو پبلک سکروٹنی کیلئے کھول دے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ ایسے حملوں کی آزادانہ اور غیر جانبدار تحقیقات کرائی جائے گی جن میں غیر قانونی ہلاکتیں سامنے آتی ہیں۔ صدر بارک اوباما اور دیگر سینئر امریکی عہدیداروں کی جانب سے ٹرانسپیرنسی بڑھانے کے تواتر کے ساتھ وعدے ہمارے تعین کرنے کیلئے کافی ہیں لیکن ان کے برعکس امریکی انتظامیہ کی جانب سے ڈرون حملوں میں ہلاکتوں اور انکی قانونی حیثیت کے بارے میں بنیادی حقائق کو روکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں جہاں ڈرون حملوں پر بہت سے پاکستانیوں میں امریکہ کیلئے پائی جانیوالی نفرت قابل فہم ہے۔ وہاں ہم شمالی وزیرستان کے لوگوں کے مصائب میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو فراموش نہیں کر سکتے یہ ایسا علاقہ ہے جہاں ہر طرف سے مقامی افراد نشانہ بن رہے ہیں یہ لوگ طالبان جیسے عسکریت پسند گروپوں، پاکستانی فوج اور امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں ہماری رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ پاکستانی ریاست شمالی وزیرستان میں لوگوں کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے اس کا دائرہ فوج کی بمباری کے باعث اموات، زخمیوں اور گھروں سے بے دخلی سے انصاف کے میکنزم کی عدم موجودگی اور مناسب میڈیکل امداد نہ ہونے تک پھیلا ہوا ہے۔
ڈرون حملوں پر پاکستان کا اپنا موقف مبہم ہے۔ یہ سچ ہے کہ حکومت نے ہمیشہ ان کی مخالفت کی بلاشبہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنی پہلی تقریر میں بڑا وقت ڈرون حملوں کو خودمختاری کی مخالفت قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کو دیا لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کو اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان میں بعض عہدیدار اور ادارے ڈرون حملوں میں امریکہ کی مدد کر رہے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والوں کے حوالے سے بھی ایک فریضہ ہے جن میں انصاف تک رسائی کی فراہمی اور دیگر علاج شامل ہیں اور اہم بات یہ کہ پاکستانی حکومت کو ڈرون حملوں کے بارے میں اکٹھی کی گئی معلومات کو لازمی طور پر عوام کے سامنے منکشف کرنا چاہئے جب تک اس دور دراز علاقے اور اس لاقانونیت کے تاریک سایوں پر روشنی نہیں ڈالی جاتی یہاں لڑنے والے تمام فریقین چھوٹ کے ساتھ آزادانہ طور پر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
جب میں زووی سوگی کے کیس کی تحقیق کر رہا تھا تو میری ایک عینی شاہد سے اس کے دوست بنگل خان کے بارے میں بات ہوئی جو ایک حملے میں مارا گیا تھا وہ چار بچوں کا 28 سالہ باپ تھا جو غزل گائیکی اور اچھے مزاح کے حوالے سے جانا جاتا تھا اس کا دوست اس خاندان کی بدقسمتی کو یاد کر کے زار و قطار رونے لگا۔ دوست نے بتایا کہ اب اس کے یتیم بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں وہ گاﺅں کے ہر شخص کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرتا تھا وہ بہت فراخدل اور سوشل آدمی تھا۔ میں اسے بہت مس کرتا ہوں“ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور دیگر تشدد میں طویل عرصے سے نشانہ بننے والے بنگل خان اور دیگر بے نام لوگوں کے خاندانوں کو انصاف کی کسی امید کے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی کے سنگین چیلنجز ہیں لیکن ان حقیقی یا خیالی خدشات کی بنا پر قبائلی علاقوں میں عام لوگوں کی زندگیوں کو ہرگز نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38