پاکستان کو اس وقت ان گنت مسائل کا سامنا ہے، مثلاً توانائی کا تکلیف دہ بحران، آئے روز بجلی ، پٹرول گیس کی قیمتوں میں اضافہ، امن و امان کی بدترین صورتحال، پاکستانی روپے کی دگرگوں حیثیت، اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ، انتہا کو پہنچی ہوئی کرپشن، بیورو کریسی کا حاکمانہ رویہ ، بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن میں سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟ توانائی کا بحران جس کی وجہ سے صنعتوں کا پہیہ رک رہا ہے یا پھر قیمتوں میں اضافہ جس کی وجہ سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھ ، امن و امان کی صورتحال جس کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار ہمیں ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ رہے ہیں یا پھر کرپشن کا ناسور جس نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے؟میرے اکثردوست اُچھل پڑتے ہیں جب میں کہتا ہوں کہ اِن میں سے کوئی بھی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام مسائل کی جڑ ٹیلنٹ سے فائدہ نہ اٹھانا یا اسے نظر اندازکرنا ہے اور اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یقینا اکثریت میرے اس دعوے سے اتفاق کریگی۔ ٹیلنٹ اُن خداداد صلاحیتوں کا نام ہے جو کسی انسان کو قدرتی طور پر حاصل ہوتی ہیں ، پاکستان میں بہت سے لوگوں نے اعلیٰ تعلیم نہ ہونے کے باوجود مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جبکہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستانی قوم پر عذاب کی طرح نازل ہونے والی "گریجویٹ" اسمبلیوں نے اس ملک و قوم کا جو حال کیا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ میں نے خود ایک پی ایچ ڈی شخص کو دیکھا ہے جو قلم کو ہاتھ لگانا اپنی توہین سمجھتا تھا جبکہ ایسے شخص کو بھی جانتا ہوں جس نے بہت اعلیٰ ڈگری نہ ہونے کے باوجود کمال کے مضامین لکھے۔ ایک صحافی دوست کے بقول جب پاکستان اپنا ایٹمی پلانٹ انتہائی تیزی سے مکمل کرنے کی کوشش کررہا تھاتو بہت سی رکاوٹوں کی طرح ایک رکاوٹ یہ بھی درپیش آن پڑی کہ ایک پرزہ کہیں سے بھی ڈھونڈے نہیں مل رہا تھا کیونکہ بالخصوص مغربی ممالک یہ ہر ممکن کوشش کررہے تھے کہ پاکستان کسی بھی طرح ایٹمی قوت نہ بن پائے۔ ایک عقلمند افسر گوجرانوالہ کے اُن اَن پڑھ بزرگ کے پاس گیا جو خراد کا کام کرتے اور اپنے فن پر بہت عبور رکھتے تھے۔ افسر نے اُن بزرگ کو اُس پرزے کی ڈایا گرام دکھا کر کہا کہ میری فیکٹری کا پرزہ ہے جو کہیں سے نہیں مل رہا، کیا آپ اسے بنا سکتے ہیں۔ اُس بزرگ نے کہا "بائوجی پچاس ہزار روپے لگیں گے اور وہ بھی ایڈوانس، ایک ہفتے کے اندر آپ کو یہ پرزہ مل جائے گا" اور واقعی ہی اُس نے ایک ہفتے میں وہ پرزہ تیار کرکے دے دیا پاکستان میں امپورٹ ہونے والی استعمال شدہ گاڑیوں کا کوئی پرزہ جب کہیں سے بھی نہیں ملتا تو باصلاحیت خرادئیے ہی اُس پرزے کی ہوبہونقل تیار کرکے دیتے ہیں۔ ذرا ملک کی سرحدوں سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں، بھارت میں واجبی تعلیم رکھنے والا ایک سیاستدان لالوپرساد یادیو جب وزیرِریلوے بنا تو خسارے میں جانے والے اِس ادارے کو اتنی ترقی دی کہ اب یہ بھارتی معیشت کو سالانہ چھ ارب ڈالر سے زائد کا منافع دے رہا ہے جبکہ ماضی قریب میں ہمارے ہاں کے گریجویٹ وزیر ِریلوے درجنوں ٹرینیں بند کرنے کا کارنامہ سرانجام دینے کے بعد صدرِ پاکستان کو یہ تاریخی مشورہ دے چکے ہیں کہ محکمہ ریلوے سِرے سے بند ہی کردیا جائے اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ دنیا کے بہت سے ممالک بغیر ریلوے کے چل رہے ہیں تو پھر ہم اس کے بغیر کیوں نہیں چل سکتے۔پاکستان کے دیگر بہت سے اہم اداروں مثلاً پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، پیپکو، این ایچ اے ، پاسکو اور یوٹیلٹی سٹورز وغیرہ کی تباہی و بربادی میں بھی اُن لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے جو شاید تعلیم یافتہ تو بہت تھے لیکن ان میں ٹیلنٹ نام کو نہیں تھا چنانچہ انہوں نے اپنی جیبیں بھرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے آج یہ ادارے قومی خزانے سے چھ سو ارب روپے کی بھاری رقم ہڑپ کررہے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کے تمام مسائل کی بنیادی وجہ ٹیلنٹ کو بُری طرح نظر انداز کرنا ہے، اگر ماضی میں تمام وزارتوں ، تمام وفاقی و صوبائی محکموں اور پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی سربراہی خداد اد صلاحتیں رکھنے والے لوگوں کو سونپی گئی ہوتی تو آج ملک کے حالات کچھ اور ہی ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہم پر ایسے لوگ مسلط ہوئے یا کیے گئے جو شاید پڑھے لکھے تو بہت تھے مگر صلاحیتوں سے بالکل عاری چنانچہ انہوں نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے اور نکل گئے۔ کیونکہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ٹیلنٹ کی بہت قدر کرتے ہیںلہذا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ خداداد صلاحیتیں رکھنے والے افراد کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائیں گے تاکہ حقیقی معنوں میں ملک کو ایشین ٹائیگر بنایا جاسکے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024