ڈاکٹر علی اکبر الازہری ۔۔۔
عالم اسلام بالعموم اور وطن عزیز پاکستان بالخصوص جن مسائل مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا ہے انکی نوعیت سیاسی بھی ہے اور اقتصادی بھی، معاشرتی بھی ہے اور سماجی بھی۔ فکری و نظریاتی بھی ہے اور علمی و تعلیمی بھی، اس اجتماعی پسماندگی کے اصل سبب کا کھوج لگایا جائے تو وہ فقط علم و شعور کا فقدان ہے۔
یہ علم اور شعور دراصل وہ روشنی ہے جو اقوام و ملل کے قافلوں کو اندھیری شب میں چراغ کا کام دیتی ہے یہ جوہر کیسے پیدا ہوتا ہے؟ بامقصد تعلیم اور مسلسل تربیت سے‘ جس طرح کوئی درخت ایک دم بڑا ہوکر پھل پھول نہیں دے سکتا بلکہ اسے پروان چڑھنے میں وقت توجہ اور ضروری کانٹ چھانٹ درکار ہوتی ہے بالکل اسی طرح کوئی قوم، معاشرہ اور تہذیب بھی از خود عروج تک نہیں پہنچ سکتے۔ قوموں اور تہذیبوں کے پروان چڑھنے میں ماہ وسال نہیں صدیوں کی محنت اور تعمیر درکار ہوتی ہے۔ اس سے قوموں اور معاشروں کو ناقابل تسخیر بنایا جاتا ہے۔ انکے اندر اجتماعی شعور بیدار ہوتا ہے۔ اس قوم کے افراد ہر چیلنج کا مقابلہ حکمت و تدبر سے کرنا جانتے ہیں تو صرف اسلئے کہ انہیں شعور مقصدیت حاصل ہوتا ہے۔
قرآن حکیم کے بقول یہ انسانیت جب اجتماعی خود کشی اور تباہی کے کنارے آن لگی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کارخانہ قدرت کی عظیم ترین ہستی نبی اکرمؐ کو مجسم رحمت و حکمت بناکر صحرائے عرب میں مبعوث فرمایا۔ رسول کائناتؐ نے تباہی کے کنارے کھڑی انسانیت کو سربلند کرنے کیلئے محبت و شفقت، رحمت و رافت اور ایثار و قربانی کے جذبوں کو پروان چڑھایا۔ بولہبی اور بوجہلی عداوت کی سنگلاخ چٹانوں کو پاکیزہ کردار کی قوت سے ریزہ ریزہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کفرو شرک کے صدیوں پرانے جنگلات توحید اور علم و معرفت کے گلزاروں میں تبدیل ہوگئے۔ آپؐ کی شان معلمیت کا اعجاز تھا کہ ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ جیسے فقید المثال فرماں روائوں نے ربع صدی میں تین براعظموں کی تاریکیوں کو نور اسلام سے منور کردیا۔ اسلام کا پرچم بارہ سو سال تک عزت و احتشام سے لہراتا رہا اور اسلامی تہذیب ایک غالب قوت کی حیثیت سے دنیا پر چھائی رہی تو اسکے پیچھے دراصل اسی علم و شعور کی قوت کار فرما تھی۔ دنیا میں اس اسلامی انقلاب کے علاوہ بھی جتنی تہذیبیں پروان چڑھی ہیں اور انہوں نے دنیا کو خیرہ کیا ہے وہ بھی صدیوں کی منصوبہ بندی اور علم و شعور کی قوت کے ذریعے ہی ممکن ہوا ہے۔
آج انسانیت کو پھر تباہی کا سامنا ہے‘ تہذیبی تصادم کے مغربی نظریئے نے انفرادی مذہبی اور ریاستی دہشت گردی کا جواز پیدا کرکے دنیا کے امن و سکون کو برباد کردیا ہے۔توسیع پسندانہ استعماری حربوں نے جھوٹ منافقت اور انسان کشی کے نئے ریکارڈ قائم کرنا شروع کردیئے ہیں۔ انسان ترقی کے نام پر مادیت پرستی کے شرک میں مبتلا ہوچکا ہے اور وہ روح کی پکار سے بے بہرہ ہوکر حیوانیت کی حدیں پھلانگ رہا ہے۔ خالق کائنات کے آخری اور حتمی نظام اسلام کے علمبردار اور پیغمبر اسلام کی امانتِ دین کے امین مسلمان علماء اور اساتذہ ہیں۔ انہوں نے اس نبوی بار امانت کو آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہے۔ آج ہمارے معاشروں میں اضطراب ، مایوسی اور ناامیدی کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔ اسکا ایک سبب اگر جہالت کو قرار دیں تو بھی بجا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ گمراہی پھیلانے والے اور بدامنی کا موجب بننے والے یہ طبقات اور افراد بظاہر پڑھے لکھے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ اصل سبب تعلیم کی کمی نہیں بلکہ تعلیم کی کجی ہے۔ علم کیساتھ تربیت اور محبت کا جوہر تقسیم نہ کیا جائے تو یہ سانپ بن کر معاشرتی حسن کو ڈستا ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺنے اسی لئے غیر نفع بخش علم سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ ہمارے معاشروں میں جو توڑ پھوڑ شروع ہوچکی ہے اسکا سبب تربیت کی کمی نہیں بلکہ غلط انداز تربیت ہے۔ تعصبات کا زہر مختلف طریقوں سے پھیلایا جارہا ہے۔ نسلی، لسانی، قبیلائی، مسلکی اور جغرافیائی تعصبات قومی وجود کیلئے زہر قاتل ہیں۔ اسلام نے یہی تعصبات ختم کرکے جمعیت ملت کا درس دیا تھا۔ یہی تو وہ بت ہیں جنہیں توڑ کر امت محمدی ﷺدنیا پر راج کرتی رہی۔ یاد رکھیں جب تک تعلیمی ادارے اور اساتذہ تعصبات سے پاک ہوکر تعلیمی جہاد میں سرگرم نہیں ہونگے معاشرہ امن اور محبت کی فضائوں کو ترستا رہے گا‘ بدقسمتی سے پاکستان کے نجی، سرکاری اور بالخصوص دینی ادارے اور وہاں موجود معمارانِ قوم و ملت شاہین بچوں کو تسخیر کائنات کا سبق پڑھانے کی بجائے تسخیر مسالک کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ ان متعصب اور غبار آلودہ افکار و نظریات کو لیکر آگے بڑھنے والے لوگ کیسے اس بار امانت کا لحاظ رکھیں گے۔ہمیں پریشان اور مایوس ہونے کی بجائے قوم کی تعلیم تربیت پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی بقول شاعر …؎
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
اس دور میں جینا لازم ہے جس دور میں جینا مشکل ہو
اس سارے منظر نامے پر جس طبقے کی اہمیت ابھر کر سامنے آئی ہے اور جس کی ذمہ داریاں دیگر طبقات معاشرہ کی نسبت سب سے زیادہ ہیں وہ اساتذہ کرام کا طبقہ ہے۔ اساتذہ اگر تعمیر قوم کا عزم کرلیں اور انہیں سیاسی کشمکش کے اثرات بد سے محفوظ کردیا جائے تو ہمارے شاہین صفت نوجوان اب بھی فضائوں کو مسخر کرسکتے ہیں۔ انہیںیہ خداوندان مکتب اگر ’’خاکبازی‘‘ کا درس پڑھانے کی بجائے قوموں کی امامت کا سبق پڑھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ قرآن اور سیرت طیبہ جیسے علم و حکمت اور بصیرت و روحانیت کے سرچشمے انکی رہنمائی کا حق ادا نہ کریں‘ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اساتذہ تمام تر تعصبات سے بالا ہوکر نونہالان قوم کی تربیت کریں۔ انہیں شجاعت، امانت اور دیانت کا درس دیں اور انہیں مادی مفادات کے حصول کی بجائے امت کی امامت کیلئے تیار کریں تو اسی مٹی سے پھر رازی، غزالی اور اقبال و قائد جیسے فرزند پیدا ہونگے۔ آپ سیاستدانوں، قومی رہنمائوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں پر کڑھنے کی بجائے اپنا فریضہ نبھائیں۔ اپنے کردار و عمل کو صاف اور شفاف بنالیں اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا کرلیں اور اپنے حصے کی روشنی پھیلانے کا عزم صمیم کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ اندھیرے کافور نہ ہوں۔
(گذشتہ دنوں منہاج ٹیچر فورم کے زیر اہتمام گجرات شہر کے معزز اساتذہ کے اجتماع میں بیان کئے گئے خیالات کا خلاصہ)
عالم اسلام بالعموم اور وطن عزیز پاکستان بالخصوص جن مسائل مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا ہے انکی نوعیت سیاسی بھی ہے اور اقتصادی بھی، معاشرتی بھی ہے اور سماجی بھی۔ فکری و نظریاتی بھی ہے اور علمی و تعلیمی بھی، اس اجتماعی پسماندگی کے اصل سبب کا کھوج لگایا جائے تو وہ فقط علم و شعور کا فقدان ہے۔
یہ علم اور شعور دراصل وہ روشنی ہے جو اقوام و ملل کے قافلوں کو اندھیری شب میں چراغ کا کام دیتی ہے یہ جوہر کیسے پیدا ہوتا ہے؟ بامقصد تعلیم اور مسلسل تربیت سے‘ جس طرح کوئی درخت ایک دم بڑا ہوکر پھل پھول نہیں دے سکتا بلکہ اسے پروان چڑھنے میں وقت توجہ اور ضروری کانٹ چھانٹ درکار ہوتی ہے بالکل اسی طرح کوئی قوم، معاشرہ اور تہذیب بھی از خود عروج تک نہیں پہنچ سکتے۔ قوموں اور تہذیبوں کے پروان چڑھنے میں ماہ وسال نہیں صدیوں کی محنت اور تعمیر درکار ہوتی ہے۔ اس سے قوموں اور معاشروں کو ناقابل تسخیر بنایا جاتا ہے۔ انکے اندر اجتماعی شعور بیدار ہوتا ہے۔ اس قوم کے افراد ہر چیلنج کا مقابلہ حکمت و تدبر سے کرنا جانتے ہیں تو صرف اسلئے کہ انہیں شعور مقصدیت حاصل ہوتا ہے۔
قرآن حکیم کے بقول یہ انسانیت جب اجتماعی خود کشی اور تباہی کے کنارے آن لگی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کارخانہ قدرت کی عظیم ترین ہستی نبی اکرمؐ کو مجسم رحمت و حکمت بناکر صحرائے عرب میں مبعوث فرمایا۔ رسول کائناتؐ نے تباہی کے کنارے کھڑی انسانیت کو سربلند کرنے کیلئے محبت و شفقت، رحمت و رافت اور ایثار و قربانی کے جذبوں کو پروان چڑھایا۔ بولہبی اور بوجہلی عداوت کی سنگلاخ چٹانوں کو پاکیزہ کردار کی قوت سے ریزہ ریزہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کفرو شرک کے صدیوں پرانے جنگلات توحید اور علم و معرفت کے گلزاروں میں تبدیل ہوگئے۔ آپؐ کی شان معلمیت کا اعجاز تھا کہ ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ جیسے فقید المثال فرماں روائوں نے ربع صدی میں تین براعظموں کی تاریکیوں کو نور اسلام سے منور کردیا۔ اسلام کا پرچم بارہ سو سال تک عزت و احتشام سے لہراتا رہا اور اسلامی تہذیب ایک غالب قوت کی حیثیت سے دنیا پر چھائی رہی تو اسکے پیچھے دراصل اسی علم و شعور کی قوت کار فرما تھی۔ دنیا میں اس اسلامی انقلاب کے علاوہ بھی جتنی تہذیبیں پروان چڑھی ہیں اور انہوں نے دنیا کو خیرہ کیا ہے وہ بھی صدیوں کی منصوبہ بندی اور علم و شعور کی قوت کے ذریعے ہی ممکن ہوا ہے۔
آج انسانیت کو پھر تباہی کا سامنا ہے‘ تہذیبی تصادم کے مغربی نظریئے نے انفرادی مذہبی اور ریاستی دہشت گردی کا جواز پیدا کرکے دنیا کے امن و سکون کو برباد کردیا ہے۔توسیع پسندانہ استعماری حربوں نے جھوٹ منافقت اور انسان کشی کے نئے ریکارڈ قائم کرنا شروع کردیئے ہیں۔ انسان ترقی کے نام پر مادیت پرستی کے شرک میں مبتلا ہوچکا ہے اور وہ روح کی پکار سے بے بہرہ ہوکر حیوانیت کی حدیں پھلانگ رہا ہے۔ خالق کائنات کے آخری اور حتمی نظام اسلام کے علمبردار اور پیغمبر اسلام کی امانتِ دین کے امین مسلمان علماء اور اساتذہ ہیں۔ انہوں نے اس نبوی بار امانت کو آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہے۔ آج ہمارے معاشروں میں اضطراب ، مایوسی اور ناامیدی کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔ اسکا ایک سبب اگر جہالت کو قرار دیں تو بھی بجا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ گمراہی پھیلانے والے اور بدامنی کا موجب بننے والے یہ طبقات اور افراد بظاہر پڑھے لکھے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ اصل سبب تعلیم کی کمی نہیں بلکہ تعلیم کی کجی ہے۔ علم کیساتھ تربیت اور محبت کا جوہر تقسیم نہ کیا جائے تو یہ سانپ بن کر معاشرتی حسن کو ڈستا ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺنے اسی لئے غیر نفع بخش علم سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ ہمارے معاشروں میں جو توڑ پھوڑ شروع ہوچکی ہے اسکا سبب تربیت کی کمی نہیں بلکہ غلط انداز تربیت ہے۔ تعصبات کا زہر مختلف طریقوں سے پھیلایا جارہا ہے۔ نسلی، لسانی، قبیلائی، مسلکی اور جغرافیائی تعصبات قومی وجود کیلئے زہر قاتل ہیں۔ اسلام نے یہی تعصبات ختم کرکے جمعیت ملت کا درس دیا تھا۔ یہی تو وہ بت ہیں جنہیں توڑ کر امت محمدی ﷺدنیا پر راج کرتی رہی۔ یاد رکھیں جب تک تعلیمی ادارے اور اساتذہ تعصبات سے پاک ہوکر تعلیمی جہاد میں سرگرم نہیں ہونگے معاشرہ امن اور محبت کی فضائوں کو ترستا رہے گا‘ بدقسمتی سے پاکستان کے نجی، سرکاری اور بالخصوص دینی ادارے اور وہاں موجود معمارانِ قوم و ملت شاہین بچوں کو تسخیر کائنات کا سبق پڑھانے کی بجائے تسخیر مسالک کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ ان متعصب اور غبار آلودہ افکار و نظریات کو لیکر آگے بڑھنے والے لوگ کیسے اس بار امانت کا لحاظ رکھیں گے۔ہمیں پریشان اور مایوس ہونے کی بجائے قوم کی تعلیم تربیت پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی بقول شاعر …؎
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
اس دور میں جینا لازم ہے جس دور میں جینا مشکل ہو
اس سارے منظر نامے پر جس طبقے کی اہمیت ابھر کر سامنے آئی ہے اور جس کی ذمہ داریاں دیگر طبقات معاشرہ کی نسبت سب سے زیادہ ہیں وہ اساتذہ کرام کا طبقہ ہے۔ اساتذہ اگر تعمیر قوم کا عزم کرلیں اور انہیں سیاسی کشمکش کے اثرات بد سے محفوظ کردیا جائے تو ہمارے شاہین صفت نوجوان اب بھی فضائوں کو مسخر کرسکتے ہیں۔ انہیںیہ خداوندان مکتب اگر ’’خاکبازی‘‘ کا درس پڑھانے کی بجائے قوموں کی امامت کا سبق پڑھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ قرآن اور سیرت طیبہ جیسے علم و حکمت اور بصیرت و روحانیت کے سرچشمے انکی رہنمائی کا حق ادا نہ کریں‘ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اساتذہ تمام تر تعصبات سے بالا ہوکر نونہالان قوم کی تربیت کریں۔ انہیں شجاعت، امانت اور دیانت کا درس دیں اور انہیں مادی مفادات کے حصول کی بجائے امت کی امامت کیلئے تیار کریں تو اسی مٹی سے پھر رازی، غزالی اور اقبال و قائد جیسے فرزند پیدا ہونگے۔ آپ سیاستدانوں، قومی رہنمائوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں پر کڑھنے کی بجائے اپنا فریضہ نبھائیں۔ اپنے کردار و عمل کو صاف اور شفاف بنالیں اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا کرلیں اور اپنے حصے کی روشنی پھیلانے کا عزم صمیم کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ اندھیرے کافور نہ ہوں۔
(گذشتہ دنوں منہاج ٹیچر فورم کے زیر اہتمام گجرات شہر کے معزز اساتذہ کے اجتماع میں بیان کئے گئے خیالات کا خلاصہ)