کراچی میں چیف جسٹس پاکستان کی محنت رنگ لے آئی
کراچی میں بیس سال بعد عدالتی حکم پر لوکل ٹرین چل پڑی ہے ۔پھر سے ایک بار مقامی لوگوں نے اس پر سفر کرنا شروع کر دیاہے۔شہری خوش ہیں ۔ چیف جسٹس پاکستان کے گیت گا رہے ہیں َ جن کے حکم سے ایک بار پھر ٹرین چلنے کے قابل ہوئی ۔امید کرتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب جو ڈیشری کے مسائل پر بھی اسی طرح توجہ دیں گے ۔ کیونکہ جوڈیشری کی اپنی ٹرین بہت سست روی اور مسائل کا شکار ہے ۔ اس لئے کہ عام شہری کے کیسوں کے فیصلے بہت لیٹ ہو رہے ہیں ۔جج بھی یہ فیصلے اس وقت کر سکتا ہے جب کیس کی فائل جج کی ٹیبل پر ہو گی۔ جس طرح ہر مسافر سفر پر جانے کیلئے ٹرین تک تو پہنچ جاتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ اس میں سوار بھی ہو ۔ رش کی وجہ سے مسافر ٹرین بس یا ہوائی جہاز میں سوار نہیں ہو پاتا اسی طرح کا ہمارا عدالتی نظام بھی ہے۔جہاں کیس فائل توہو جاتے ہیں ۔ سائل عدالت تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن رش کی وجہ سے ارجنٹ کیس بھی سنے نہیں جا رہے ۔جس سے شہریوں کا نا قابل تلافی نقصان ہو رہا ہے ۔ جیسے عدلیہ نے اپنے آڈر سے جزوی ٹرین کراچی کی چلا دی ہے۔ اسی طرح امید کرتے ہیں چیف جسٹس پاکستان انصاف کی رہ میں موجود رکاوٹوں کو بھی دور کر نے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ آپ جانتے ہیں انصاف کی رہ میں کون کون سی رکاوٹیں ہیں جو اس سسٹم کو چلنے نہیں دے رہیں ۔ عام شہری ڈرتا ہے کہ اگر میں نے جوڈیشری پر کوئی بات کی تو وہ کئی توہین عدالت کے زمرے میں نہ آ جائے ۔لہذا کچھ کہتے نہیں۔ لکھتے نہیں ۔ جبکہ انہیں چائیے کہ وہ اپنے مسائل سے چیف جسٹس پاکستان کو آگا ہ کیا کریں ۔پریشان ہو کرخود کشی کا کبھی نہ سوچیں ۔ چیف صاحب نرم دل کے مالک ہیں۔عام شہری کے مسائل سے واقف ہیں ۔ سنتے ہیں ۔ جہاں ریلف بنتا ہے وہاں ریلف د یتے ہیں ۔ دنیا ساری میں جوڈیشری کا ادارہ سب سے اہم ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ باقی ادارے اگر ٹھیک نہ بھی ہوں تو کام چل جاتا ہے لیکن یہ ادارہ اگر ٹھیک سے نہیں چل رہا ہوتو پھر اس ادارے کے اثرات باقی اداروں پر بھی پڑتے ہیں اور وہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وقت ملک بھر کی جوڈیشری میں ججز کی تعداد بہت کم ہے ۔ ججوں کی کمی کی وجہ سے کیس وقت پر سنے نہیں جا رہے ۔ اب تو سپریم کورٹ کی اپنی حالت زار یہ ہے کہ کیسوں کے رش کی وجہ سے ارجنٹ کیس بھی نہیں سنیں جا رہے ۔ بار بار درخواست دی جاتی ہے کہ اس کیس میں ہماری یہ ایمرجنسی ہے مگر فیکچر برانچ والے بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔ارجنٹ کیس جلد نہیں لگاتے ۔اس سلسلے میں وکلا چیف جسٹس صاحب سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں مگر آپ کا سٹاف آپ سے ملنے نہیں دیتا وکلا کو ٹرخا دیا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وکلا اپنے ذاتی کیسوں میں بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔ اس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ کہا جاتا ہے کراچی ٹرین کے چلنے کے موقع پر کسی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو دعائیں دیں۔کسی نے خوشی میں آپ کو شاپاش دی ۔ایسے میں ایک مجبور شخص نے پوچھا چیف صاحب کے حکم پر ٹرین تو چل پڑی ہے کیا چیف صاحب اپنی عدالتیں بھی ٹھیک کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔کیس لگتے نہیں ۔ایک نے کہا پہلے والے چیف جسٹس نے اپنا سارا وقت ڈیم بنانے میں گزار دیا ۔ کاش اتنا وقت اپنی بری حال جو ڈیشئری پر لگاتے تو آج حالات ایسے نہ ہوتے جیسے ہیں ۔ ایک نے واقع سناتے ہوئے کہا ایک کیس میں جج نے پندرہ سال بعد مقدمہ جیتنے پر ملزم کو بھری کورٹ میں مبارکباد دی تو ملزم نے جج کو دعا دی ا ﷲآپ کو ترقی دے اور آپ کو تھانیدار بنائے۔جج ملزم کی سادگی پر مسکرا دیا اور کہا جج تھانیدار سے بڑا ہوتا ہے۔ملزم نے کہا نہیں جج صاحب ۔تھانیدار بڑا ہوتا ہے ۔ جج نے پوچھا وہ کیسے ۔ ملزم بولا آپ کو میرا کیس ختم کرنے میں پندرہ سال لگے ۔تھانیدار شروع سے بول رہا تھا بیس ہزار دے دو اور میں معاملہ ادھر ہی
فوری رفع دفع کر دیتا ہوں ۔سامنے بیٹھے شخص نے کہا ججز کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کی عدلیہ 128 ممالک کی عالمی درجہ بندی میں آزاد و شفاف فیصلہ جات کرنے میں 118 واں نمبر حاصل کرنے میں کا میاب ہو گئی ۔ پہلے نمبر پہ بلجیم کے کافر جج آئے ہیں۔ جو سیدھے جہنم میں جائیں گے اور 118 نمبر پر آنے والے یہ فرشتے سیدھے جنت میں ۔ آپ سب کو مبارک ہو۔ ابھی پیر سولہ نومبر دوہزار بیس کی ایک اخبار نے ایک محترمہ ایڈیشنل سیشن جج کا چیف جسٹس پنجاب کے نام ایک کھلا خط شائع ہوا ہے ۔ جس میں محترمہ جج صاحبہ نے لکھا ہے کہ اگر اسلام میں خود کشی حرام نہ ہوتی تو وہ خود کو سپریم کورٹ کی
عمارت کے سامنے خود کشی کر لیتی کیونکہ جج کی حثیت سے انہیں اور ان کے ساتھی ججوں کو روزانہ کی بنیاد پر گالیاں سننے ، توہین اور ہراسکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تحریر ہم سب کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ۔یہ جج صاحبہ بے بس کیوں ہیں ۔ان کی مدد کو کون آئے گا ۔ اس پر شائد کسی نے ایکشن لیا ہو مگر اخبارات میں ابھی تک مکمل خاموشی ہے۔ محترمہ ایک وقت وہ تھا جب فیصلہ سنتے وقت قاضی کا جاہ و جلال دیکھ کر مجرموں کی ٹانگیں کانپ جاتیں تھیں اور ایک وقت اب ہے جب مجرموں کا جاہ و جلال دیکھ کر قاضی کی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔کہا جاتا ہے کہایسا اس لئے ہے کہ ہم نے میرٹ پر جج بنانے چھوڑ دئے ہیں ۔ سفارشی ، ججوں کے بھانجے بھتیجے اور بڑے چمیروں سے جج لئے جاتے ہیں ۔اسی طرح ایسے لوگ جو وکیل ہی نہیں ہوتے انہیں لا افسر بنائے دئے جاتے ہیں جن کے پاس بے اے کی ڈگری تک نہیں ہوتی ۔ ایسے وکلا پکڑے جانے پر بھی سزائوں سے بچ جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ججوں پر رشوت کے الزامات لگتے ہیں ۔مگر ان کے کیس جو ڈیشل کونسل میں ہی پڑے رہ جاتے اور اس دوران یہ جج کام کرتا رہتا ہے۔جوں ہی کیس چلنے لگتا ہے یہ جج الزامات ثابت ہونے کے ڈر سے خود ہی چھوڑ کر گھر چلے جاتے ہیں ۔جس کے بعد فائل بند ہو جاتی ہے ۔