اتوار ‘ 6؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 22؍ نومبر 2020ء
کاشتکار گنا فراہم نہیں کر رہے ملیں بند‘ شوگر ملز کا وفاقی حکومت کو خط
یہ عجب کھتارسس ہے۔ آج تک یہی سنتے آ رہے تھے کہ شوگر ملیں گنا مقررہ حکومتی قیمت پر خریدنے سے انکاری ہیں۔ مگر اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ شوگر ملیں نوحہ خواں کہ کاشتکار گنا فراہم نہیں کر رہے۔ اتنا بڑا فریب کہیں یا اتنی بڑی گپ کون قبول کرے گا۔ کاشتکار گنا کاٹ کر ٹرالوں پر لاد کر یہ شوگر ملز کے ہاتھ طویل قطارے بنائے کھڑے ہیں۔کیا یہ سب وہاں میلہ دیکھنے آتے ہیں۔وہ تو آتے ہی اپنی فصل فروخت کرنے ہیں۔ مگر شوگر ملز والے اپنی من مانی قیمت دینے پر اصرار کرتے ہیں اور وزن میں بھی ڈنڈی مارتے جاتے ہیں۔ کاشتکار چپ چاپ لٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب شوگر ملز والے جو پہلے ہی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ دار ہیں۔ اب عدالتوں میں اسکی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔وہ کاشتکاروں پر الزام لگا کر اپنی جان بچانے کے چکر میں ہیں۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ گنا کاٹ کر ٹرالیوں پر لاد کر اتنی محنت مشقت اٹھانے کے بعد شوگر مل لے جا کر گنا فروخت کرنے سے انکار کرے اور زیادہ قیمت طلب کرے۔ اگر اس نے یہی کرنا تھا تو اس نے فصل کاٹی ہی کیوں۔ وہ تو اس وقت گنا خراب ہونے کے ڈر سے پہلے کی طرح شوگر ملز والوں کی طرف سے مقرر کردہ کم قیمت پر بھی گنا فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسلیے شوگر ملز والے فریبی خط لکھ کر حکومت کو گمراہ نہ کریں مقررہ ریٹ پر گنے کی خریداری یقینی بنائیں۔
٭…٭…٭
ڈارک ویب کے سرغنہ سہیل کو سزائے موت‘ عمر قید اور 15 لاکھ جرمانہ‘ ساتھی کو 7 سال قید ایک لاکھ جرمانہ
عدالت کا یہ فیصلہ ان لوگوں کیلئے تازیانہ عبرت ہوگا جو ایسے غلط کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ درندے نہ صرف معصوم بچوں کی حرمت پامال کرتے ہیں بلکہ انہیں قتل تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسے وحشی درندوں کو ایسی کڑی‘ عبرتناک سزا ملنی چاہئے‘ یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ فحش سائٹس چلانے والے معاشرے میں گندگی پھیلانے اور حیوانیت کو فروغ دینے کے مجرم ہوتے ہیں۔ فحش مواد کی دستیابی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ جس تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا ہے‘ اس سے کوئی بھی شخص غافل نہیں۔ آئے روز معصوم‘ کمسن بچیوں اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کو قتل کیا جا رہا۔ اس کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں جو معاشرے میں بے راہ روی پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاںغربت اور ناخواندگی کا دور دورہ ہے۔ پیسوں کے لالچ میں شریف گھرانوں کے بچے بھی غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں۔ فحش مواد کا کاروبار کرنے والے پیسوں کا لالچ دیکر فحش ویب میں ان بچوں اور بچیوں کو استعمال کرتے ہیں۔ عوام تو عرصہ دراز سے کمسن بچوں اور بچیوں سے زیادتی اور ان کے قتل میں ملوث افراد کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سرعام ایسی سزائوں سے جو خوف پیدا ہوگا‘ اس سے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
کل پشاور میں دمادم مست قلندر ہو گا‘ اپوزیشن
ظاہر بات ہے جب حکومت خیبر پی کے جلسے کی اجازت نہیں دے رہی اور اپوزیشن والے بضد ہیں کہ جلسہ ضرور ہو گا تو پھر وہی غالب والی بات ’’ہو کے رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیوں‘‘ کے مصداق عوام کے بول میں ’’دمادم مست قلندر ہی ہو گا‘‘ماضی میں اسی دمادم مست قلندر کے بہت سے نتائج اچھے بھی نکلے اور برے بھی ہم بھگتتے آ رہے ہیں۔ ہماری تاریخ میں کئی مرتبہ دمادم مست قلندر کی نوبت آئی۔ اس بار ذرا بات مختلف ہے۔ کرونا کا عفریت بری طرح منہ کھولے ہماری طرح بڑھ رہا ہے۔ اس کی دوسری لہر پوری شدت سے سر اٹھائے ہمارے مقابل آ چکی ہے۔ اگر احتیاط نہیں کی تو پھر یہ کرونا سونامی بن کر بہت سے لوگوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا اور ہم …؎
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
بھی نہیں کہہ پائیں گے۔ اس لئے اپوزیشن بھی لوگوں کی زندگیوں پر رحم کھائے۔ ورنہ خیبر پی کے کے ہسپتالوں کی جو وبا کی شدت کے آگے تو یہ ہسپتال بھی بے بس ہو جائیں گے۔ اب آج میدان سجے گا۔ جہاں حفاظتی اقدامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوں تب بھی اوراگر حکومت نے بزور طاقت انہیں روکا تو تب بھی واقعی دمادم مست قلندر ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اپوزیشن یہ جلسہ آزاد کشمیر میں کرتی جہاں انکی اپنی حکومت ہے اور مکمل لاک ڈاؤن لگا ہے۔
٭…٭…٭
کراچی: محمود آباد میں نالے سے تجاوزات ہٹانے کا کام ٹھپ ہو گیا
کراچی میں نالوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے کا کام ایک بار پھر احتجاج کی بھینٹ چڑھتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ دنوں محمود آباد میں جو کچھ ہوا‘ وہ سب نے لائیو ٹی وی کی سکرینوں پر چلتا دیکھا۔ تقریباً ہر چینل نے ہنگامہ آرائی‘ پتھرائو اور توڑپھوڑ کی عکاسی کی۔ اسے کہتے ہیں ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ کراچی میں قبضہ گروپوں نے نجانے کیوں سمجھ لیا تھا کہ نالوں پر بھی مارکیٹیں اور مکانات بنائے جا سکتے ہیں۔ وہاں بھی نئی بستیاں آباد ہو سکتی ہیں۔ ’’کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد‘‘ والی بات بھی شاید انہی کیلئے کہی گئی تھی۔ بہرحال جب یہ لینڈ مافیا نالوں کو بھی نہیں چھوڑے گا تو جب ان نالوں کی واگزاری کا وقت آئے گا تو اس میں بدامنی پیدا ہوگی۔ نالوں پر قابض لوگ انہیں اپنی جاگیر قرار دیتے ہوئے وہاں سے تجاوزات گرانے کی اجازت نہیں دیں گے اور حکومت نالوں کو تجاوزات سے پاک کرنے کیلئے کمر کس کر میدان میں آئے گی۔ پھر وہی ہوگا جو گزشتہ دنوں محمود آباد میں ہوا اور تماشہ سب نے دیکھا۔ اچھا ہوتا کہ حکومت نالوں پر تجاوزات قائم کرنے کی اجازت دینے والوں کو پہلے لٹکاتی‘ عبرتناک سزا دیتی پھر وہاں بیٹھے لوگوں کو وارننگ دیتی جو سہم کر خودبخود وہاں سے سرک جاتے۔