عزت، شجاعت، بے خوفی، بے نیازی اور ہر سانس میں چلتا اور ہر خون کے قطرے میں دوڑتا عشق محمدؐ کسی شخص کی صورت اختیار کرتا ہے تو وہ تھے حضرت علامہ خادم حسین رضوی۔ یوں تو وہ شیخ الحدیث بھی تھے اور مفسر قرآن لیکن جس قرآن کو انہوں نے اپنی ذات کا محور اور اپنی بخشش کو سند قرار دیا ہوا تھا وہ صاحب قرآن تھا۔ آپ سرکارؐ کا عشق ہی تو تھا جس نے حضرت علامہ رضوی کو ہمت و طاقت کی ان بلندیوں پر پہنچا دیا تھا کہ بقول شورش کاشمیریؒ …؎
پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھتا ہوں جلال خسرواں
میرے آقا میرے مولا رحمت للعالمین
وہ ختم نبوت کی فوج کا وہ سپہ سالا تھا جس میں مسیلمہ کذاب جیسے منکروں سے لڑنے اور مر مٹنے کا بانکپن موجود تھا۔ وہ صدیقؓ کی وفا، فاروقؓ کا جذبہ، عثمانؓ کی حیا اور علیؓ کی شجاعت کا پرچم اٹھائے محمدؐ کے باغیوں پر اس طرح ٹوٹتا تھا کہ جیسے بقول شاعر…؎
اٹھے تو بجلی پناہ مانگے
گرے تو خانہ خراب کر دے
علامہ صاحب کی ذات کا سب سے بڑا کمال اور وصف یہی تھا کہ انہوں نے ختم نبوت کی حرمت اور آقائے نامدار حضرت محمدؐ کی عزت کی پاسبانی اور نگہبانی اس طرح کی کہ جس کی نظیر اس دور میں ملنا بہت مشکل ہے۔ عشق محمدؐ نے انہیں بادشاہوں، حکمرانوں، فرمانرواؤں،مادر پدر آزاد باؤ لے جانوروں پڑھے لکھے جاہلوں کے مزاجوں کو درست اور ٹھکانے لگانے کے لیے اتنا جری اور بے خوف بنا دیا تھا کہ وہ واقعی اپنے علمی مرشد جنہیں وہ پیار سے اقبال لاہور کہا کرتے تھے کے اس شعر کی زندہ مثال تھے۔…؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
مجھے اس مضمون میں ان کی علمی عظمت، دینی خدمت یا روحانی کرامت کا ذکر نہیں کرنا، حقیقت میں وہ ان تمام معاملات سے بہت آگے جا چکے تھے، وہ اس ذات مبارکؐ سے تعلق جوڑ چکے تھے جس کے لیے تمام جہانوں کو پیدا کیا ہے بقول مولانا ظفر علی خان…؎
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی ہو
میں اپنے پورے ایمان سے کہہ رہا ہوں کہ حضرت علامہ خادم حسین رضوی اس وقت حضرت پیر مہر علی شاہ کے اس شعر کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
اور نہ جانے کیوں مجھے حضرت علامہ خادم حسین رضوی اس قوم کو حضرت امام مالکؒ کے ان الفاظ کو دہراتے ہوئے نظر بھی آتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے حضرت امام مالکؒ سے پوچھا
’’کسی جگہ حضورؐ کی شان میں گستاخی ہو جائے تو حضورؐ کی امت کیا کرے‘‘
امام مالکؒ نے فرمایا:
’’امت مسلمہ اس کا بدلہ لے‘‘
پھر پوچھا:
اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر؟
حضرت امام مالکؒ نے تاریخی جملہ ادا کیا
’’یاد کرلو، پھر امت کو چاہیے وہ مرجائے، اس کو جینے کا کوئی حق نہیں۔
میں آخر میں حضرت خادم حسین رضوی کی نذر والد محترم جناب حضرت شورش کاشمیریؒ کے دو اشعار ہدیہ عقیدت کے طور پر پیش کر رہا ہوں جو ان کی شخصیت کے اصل جوہر ہیں۔
جانا ہے مجھ کو سرور کونین کے حضور
بطحا سے میرے دل کا تعلق ہے لازاول
میں کٹ مروں گا ختم نبوت کے نام پر
شورش ہے میرا عشق خدا داد و لازوال
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024