انصاف کا نظام حکومت اور عدلیہ کے مابین مثالی ہم آہنگی سے ہی مضبوط ہو سکتا ہے
قانون کے سامنے کوئی طاقتور نہیں‘ وزیراعظم طعنہ نہ دیں‘ عمران خان کے بیان پر چیف جسٹس کا ردعمل
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم طاقتوروں کا طعنہ ہمیں نہ دیں، جس کیس کا طعنہ وزیراعظم نے ہمیں دیا اس کیس میں باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی۔ اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم عمران خان نے نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تاثر جارہا ہے کہ ملک میں طاقتور اور کمزور لوگوں کے لیے الگ الگ قانون ہے، چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ انصاف دے کر اس ملک کو آزاد کرائیں اور عوام میں عدلیہ کا اعتماد بحال کریں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف قانون طاقتور ہے کوئی انسان نہیں، اب عدلیہ آزاد ہے، ہم نے دو وزرائے اعظم کو سزا دی اور ایک کو نا اہل کیا۔ ایک سابق آرمی چیف کا جلد فیصلہ آنے والا ہے، ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، ملک بھر میں 3100 ججز نے گذشتہ سال 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے، جن لاکھوں افراد کو عدلیہ نے ریلیف دیا انہیں بھی دیکھیں، 36 لاکھ مقدمات میں سے صرف تین چار ہی طاقتور لوگوں کے ہوں گے، ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں۔ اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہم نے امیر غریب سب کو انصاف فراہم کرنا ہے، ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں اور ہمارے منتخب نمائندے ہیں، وزیراعظم کو اس طرح کے بیانات دینے سے خیال کرنا چاہیے، عدلیہ اپنا کام پوری دیانت داری اور فرض شناسی سے کر رہی ہے، ججز اور عدلیہ کی حوصلہ افزائی کریں، ہم بغیر وسائل کے کام کر رہے ہیں،، محترم وزیراعظم نے دو دن پہلے خوش آئنداعلان کیا کہ عدلیہ کو وسائل دیں گے جب وسائل فراہم ہونگے تو مزید بہتر کام ہوگا۔دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی پارٹی ترجمانوں کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے لندن جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے جو فیصلہ دیا اسے تسلیم کیا، انہیں باہر جانے کی اجازت میڈیکل بورڈ کی سفارشات پر دی۔ اجلاس میں چیئرمین نیب کے حالیہ بیانات پر بھی تبادلہ خیال ہوا جس پر عمران خان کہا کہ میں خود احتساب کا حامی ہوں خواہ ان کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا میری اپنی حکومت سے، نیب آزاد ادارہ ہے جس کا چاہے بلاتفریق احتساب کرے، جس نے اس ملک کے پیسے کھائے اس کو حساب دینا ہو گا۔وزیراعظم عمران خان نے حکومتی ترجمانوں کو چیف جسٹس آف پاکستان کے بیان پر تبصرے سے روک دیا۔
وزیراعظم عمران خان عموماً ملک میں دہرے نظام کی بات کرتے ہیں۔ حضرت علی کے قول ’’کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے‘ ظلم کا نہیں‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم چرچل کا قول بھی دہراتے ہیں کہ اگر برطانوی عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو برطانیہ کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ’’اگر بیٹی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا‘‘ کا بھی وزیراعظم حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ انکی پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف ہے‘ کرپشن کا خاتمہ اور کڑا احتساب انکے ایجنڈے کا ترجیحی حصہ ہے۔ کرپشن کو وہ ناسور قرار دیتے ہوئے اس کو جڑوں سے ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ کرپٹ لوگ قطعاً قابل معافی نہیں‘ انکے ساتھ کسی نرمی اور رعایت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مقصد سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا مگر اس کیلئے ایک طریقہ کار ہے۔ کوئی بھی شخص کسی کے کہنے پر مستوجب احتساب ہو سکتا ہے‘ خواہ وہ کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو اور نہ ہی کسی کو متعلقہ فورم کے سوا کوئی کلین چٹ دے سکتا ہے‘ خواہ ملزم خود یا اسکے حامی اسکی بے گناہی کے جتنے بھی دعوے یا ثبوت فراہم کریں۔ وزیراعظم کی طرح ہر پاکستانی مروجہ نظام کو دیکھتے ہوئے کڑھتا ہے جس میںانصاف کے حصول کیلئے لوگوں کو دہائیوں خوار ہونا پڑتا ہے۔ کئی لوگ انصاف کی آس میں دارِفانی ہی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ کئی مایوس ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔
طاقتوروں کے سامنے قانون کو موم کی ناک بنتے قوم نے بارہا دیکھا ہے۔ مولوی تمیزالدین کیس سے لے کر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ٹیک اوور کے اقدام کو جائز قرار دینے کو طاقتوروں کیلئے الگ قانون کی مثالوں کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ ماضی کی ناخوشگوار مثالیں ہیں‘ ان سے حال اور مستقبل میں دامن نہیں چھڑایا جا سکتا تاہم آج صورتحال بہت مختلف ہے۔ اس کا اظہار خود فاضل چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے یہ ریمارکس دیکر کیا ہے کہ آج کی عدلیہ کا مقابلہ 2009ء سے قبل کی عدلیہ سے نہ کریں۔ اس میں شک والی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔ 2009ء کے بعد عدلیہ نے بڑے بڑے فیصلے کئے ہیں جو ماضی کی عدلیہ کے کئی فیصلوں کا کفارہ بھی ہیں۔ آج ملک کے دو بڑے حکمران خاندانوں کی بڑی لیڈر شپ جیل میں ہے‘ کیا وزیراعظم یا کسی بھی شخص کے پاس ایسے لوگوں کو جیل میں بند رکھنے کا اختیار ہے۔ میاں نوازشریف کو لندن جانے کی اجازت حکومت نے دی‘ لاہور ہائیکورٹ نے حکومتی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط ختم کر دی اور حکومتی ترجمانوں کے بقول عدالت عالیہ نے اس سے بھی کڑی شرط عاید کردی۔ اس حوالے سے عدلیہ کو موردالزام ٹھہرانا بلاجواز ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ایسے بیان سے احتیاط کرنے کی بات کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے چیف جسٹس کے بیان پر ترجمانوں اور وزراء کو بیان دینے سے منع کرنے کا اچھا فیصلہ ہے تاہم خود انہوں نے فاضل چیف جسٹس کا نام لئے بغیر انکے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے نوازشریف کے کیس کے معاملہ میں اپنے مافی الضمیر کا پھر اعادہ کیا۔ کچھ منہ زور حکومتی حامی بھی اسی موقف کا اعادہ کرتے نظر آتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ نے 36 لاکھ لوگوں کو انصاف فراہم کیا‘ ان میں تین چار ہی طاقتور لوگوں کے ہونگے۔ طاقتوروں کو بھی انصاف قانون کے تقاضوں کے تحت ملا تو یہی قانون و انصاف کی عملداری ہے اور یہی قوم کا مطمحٔ نظر بھی ہے جس کیلئے عمران خان اور انکی حکومت سے توقعات باندھی گئی ہیں۔ اگر حکومت عدل گستری کی بہتری کیلئے عدلیہ کو تمام مطلوبہ وسائل مہیا کر دے جس کا وزیراعظم نے یقین بھی دلایا ہے تو قانون و انصاف کی عملداری کا بول بالا ہوگا اور یہ کریڈٹ حکومت ہی کے کھاتے میں جائیگا۔ آج اسی تناظر میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ججوں کی تعداد آبادی کے مطابق ہے‘ پولیس اور پراسیکیوشن اپنا کردار پوری ذمہ داری سے ادا کررہی ہے۔ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ اسکے باوجود 31 سو جج اور مجسٹریٹ مختصر وقت میں 36 لاکھ کیسز کے فیصلے کر دیتے ہیں تو اسے معروضی حالات میں عدلیہ کی اطمینان بخش کارکردگی ہی قرار دیا جائیگا۔ وزیراعظم نے عدلیہ کو مضبوط بنانے کے حوالے سے جو پیشکش کی اور چیف جسٹس نے اس کا خیرمقدم کیا ہے‘ اسکے بعد یقیناً عدلیہ کی کارکردگی قابل رشک ہوگی۔ وسائل اور ججز کی کمی کے باوجود عدلیہ کو یقیناً یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے جس کی نشاندہی چیف جسٹس نے کی ہے کہ ہائی کورٹ میں 15 فیصد رٹ پٹیشن دائر ہونا کم ہو گئی ہیں، پولیس ریفارمز کے حوالے سے بھی بہت کام کر رہے ہیں، ایک لاکھ کے قریب مقدمات جو عدالتوں میں آنے تھے وہ نہیں آئے۔ کوئٹہ کے کیس کا 3 ماہ میں سپریم کورٹ سے فیصلہ ہوا، دو دن پہلے ایک قتل کیس کا ویڈیو لنک کے ذریعے فیصلہ کیا گیا۔ ان ہی وسائل پر ہم نے سپریم کورٹ کا 25 سال کا کریمنلز اپیلز کا بیک لاگ ختم کیا۔ کراچی،لاہور،پشاور، کوئٹہ میں اس وقت کوئی کریمنل اپیل زیر التوا نہیں۔ ماڈل کورٹس نے تمام نتائج صرف 187 دنوں میں دئیے‘ 20 اضلاع میں کوئی سول اور فیملی اپیل زیرالتواء نہیں، منشیات کے 23 اضلاع میں کوئی زیرالتواء مقدمات نہیں، ماڈل کورٹس کی وجہ سے 116 اضلاع میں سے 17 میں کوئی قتل کا مقدمہ زیر التواء نہیں، تمام اپیلوں کے قانون کے مطابق فیصلے کیے گئے فیملی کورٹس بھی کام کررہی ہیں اور ایک خاتون جج نے تو مقدمات نمٹانے تک اپنی شادی مؤخر کردی تھی۔
بلاشبہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ کوئی طاقتور اور کوئی ناتواں نہیں ہوتا۔ قانون اور معاشرے کی نظر میں قانون کا احترام کرنیوالا طاقتور اور مجرم کمزور ہوتا ہے۔ نظام انصاف کو مضبوط بنا کر قانون کا احترام کرنے والوں کو طاقتور بنایا جا سکتا ہے جس سے بظاہر طاقتور نظر آنیوالے مجرم منطقی انجام کو پہنچ جائیں گے۔ نظام انصاف کو مضبوط بنانا حکومت کی اول و آخر ذمہ داری ہے۔ انصاف کا نظام حکومت اور عدلیہ کے مابین مثالی ہم آہنگی اور تعلقات کار ہی سے مضبوط ہو سکتا ہے۔ اداروں میں ٹکرائو کے کبھی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔