ملکی حالات بڑے نازک موڑ پر کھڑے ہیں ۔ہر ادارہ دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کرتا نظر آتا ہے ۔حالانکہ آئین و قانون میں ہر ادارے کی حدود کا تعین موجود ہے لیکن اسکے باوجود نہ جانے کیوں اس سے تجاوز کیا جاتا ہے ۔جناب مجید نظامی ؒکی موجودہ دور میں بہت ’’ یاد ستاتی‘‘ ہے۔انھوں نے ملک کو اقبال و قائد کے فرمودات کے مطابق عظیم ملک بنانے کا عزم کر رکھا تھا۔جس کیلئے انھوں نے بڑی جدو جہد بھی کی۔آپ ؒکی سوچوں کا سرچشمہ علامہ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒتھے۔ آپ ؒکو غیر متزلزل یقین تھا کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی فلاح اسی میں ہے کہ قائد اعظم ؒکے فرمودات کے مطابق پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنا دیا جائے۔ عارضہ قلب کے باوجود وہ نہ صرف اپنے ادارے نوائے وقت گروپ کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے رہے بلکہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو بھی پاکستان میں نظریاتی تعلیم دینے کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا۔آپ ؒ ہمیشہ ملک کی خاطر متفکر نظر آئے ،آپ ؒنے آخری دم تک کشمیر کی آزادی کیلئے کوششیں کیں اور بھارت کو ہر موقع پر للکارا۔اب کشمیر کا معاملہ نازک موذ پہ کھڑا ہے کوئی اس پر کوئی بھی سیاستدان کسی مضبوط موقف کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آتا ۔ بھارتی آبی قزاقی کے خلاف آپ نے آواز بلند کی اور ہر موقع پر اس بات پر زوردیا کہ ہم ڈیم بنا کر اپنے ملک کو پانی کے بحران سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔اب جب مودی سرکار نے پاکستان کا پانی بند کرنے کا اعلان بھی کیا ہے تو کسی نے اسے منہ توڑ جواب نہیں دیا ۔ان حالات میں جناب مجید نظامی کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے ۔ جب ملک میں صدر ایوب خان کا طوطی بولتا تھااور کوئی بھی سیاستدان اسکے سامنے کھڑا ہونے کو تیار ہی نہیں تھا ،تب صرف محترمہ فاطمہ جناح آمر کے سامنے کھڑی ہوئیں لیکن ساری قربانیوں کے باوجود سیاست میں انھیں آگے نہیں آنے دیا گیا‘ وہاں حکومت کے خلاف کچھ بولنا یا لکھنا بہت مشکل تھا۔ ان حالات میں صحافت کے میدان میں اگر کسی ادارے نے ناقابل یقین جرات کا مظاہرہ کیا تو وہ نوائے وقت میڈیا گروپ تھا جسکے ہراول دستے کے قائد صحافت جناب مجیدنظامی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نوائے وقت اس دور کا مقبول ترین ’’ اردو کا اخبار‘‘ بن گیاتھا۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کھلم کھلا حمایت کی ایوب خان کیخلاف تحریک چلی تو نوائے وقت اس تحریک کا ہر اول دستہ تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمرانہ’’ دہشت ‘‘ماحول پر طاری تھی۔ا یوب خان نے بعض اخبارات پر پابندی عائد کی تو اخباری مدیران کا ایک وفد ایوب خان سے ملنے گیا۔ ایوب خان نے ’’رعونت بھرے لہجے ‘‘میں مدیران کو مخاطب ہو کر کہا ’’کہ آپ کوشرم آنی چاہئے۔ آپ اپنے گریبانوں میں جھانک کردیکھیں‘‘یہ سن کر سناٹا چھاگیا۔ اچانک ایک آواز ابھری سب نے دیکھاکہ نوائے وقت کے مدیر مجید نظامی اپنی نشست پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے ایوب خان سے کہا کہ ’’میں اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو مجھے اپنے آپ پر فخر محسوس ہوتا ہے‘‘۔ انکی اس بات پر ایوب خان کو کچھ کہتے نہ بنی اور انہوں نے مجلس برخواست کر دی۔اپنے اسی کردار کی وجہ سے انہوں نے ایوب خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی ڈکٹیٹروں سے ٹکر لی اور ترکی بہ ترکی جواب دیکر انکی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کیخلاف ان کے سامنے آواز بلند کی۔ انکے اس نعرہ مستانہ کے بھی انکے دوست اور دشمن قائل ہیں۔ ملکی تاریخ کے ان تین بڑے فوجی ڈکٹیٹروں نے متعدد حربے استعمال کرکے مجید نظامی اور نوائے وقت کو اپنا حامی بنانے کی۔ کئی بار کوشش کی مگر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اشتہاروں کی بندش اور اخباری کاغذ کے پرمٹ کی منسوخی نے انہیں کبھی متزلزل نہیں کیا۔ یہ پابندیاں اکثر مہینوں اور کبھی کبھی سالوں پر محیط ہوتی تھیں۔ اس سب پریشرز کو برداشت کرنا اور حق گوئی کا راستہ نہ چھوڑنا یہ تھا وہ رویہ جس نے مجید نظامی ؒکو اپنے دور کی قد آور شخصیات میں نمایاں مقام دلایا۔آپؒ نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو ملک خداداد کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی نگہبانی اور بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کی امنگوں اور انکے زریں اصولوں کے مطابق یہاں جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے وقف کر دیا۔آپ ؒ نے اپنے نفع نقصان کی پرواہ کی نہ جرنیلی اور سول آمروں کی ترغیب و تخویف کو کبھی خاطر میں لائے۔ وہ اپنی ذات میں خوبیوں ہی خوبیوں اور صفات ہی صفات کا مجموعہ تھے جو برملا اس امر کا اظہار و اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے محافظ ہیں اور اس کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آپ ؒسچے اور کھرے پاکستانی ہونے کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا دشمن اول بھارت بھی انہیں اپنا دشمن اول قرار دیتا رہا جبکہ نظریہ پاکستان اور ملک کی سالمیت کیخلاف کسی بھی فورم پر کوئی بات برداشت کرتے تھے نہ اس پر کسی مفاہمت پر آمادہ ہوتے تھے۔ وہ اسی ناطے سے نوائے وقت گروپ کے ذریعے بھارت نواز حکمرانوں اور دوسرے حلقوں سے ٹکر مول لیتے تھے۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان جابر سلطان کے آگے کلمہ ِحق کہنے والے مردِ مجاہد اور امامِ صحافت مجید نظامی اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔لیکن ملک کے موجودہ حالات میں آپ کی یاد بہت ستاتی ہے۔آپکی عدم موجودگی میں بھی آپ کا مشن جاری ہے ۔نوا ئے وقت ابھی روزانہ کی بنیاد پر اپنے صفحہ اول میں کشمیریوں پر آنے والی مصیبت کا شمار کر رہا ہے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024