اپنے قومی نظریاتی اخبار روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور کے ڈائریکٹر برائے ایڈمنسٹریشن لیفٹنٹ کرنل (ریٹائرڈ) ندیم قادری سے میری پہلی باضابطہ ملاقات انکے دفتر میں جناب سعید آسی کے توسط سے ہوئی۔ آسی صاحب اداریہ لکھنے کی تیاری تقریبا مکمل کر چکے تھے کہ میں نے کرنل صاحب سے ملاقات کی خواہش کا ان سے اچانک اظہار کر دیا… انہوں نے مجھے دیکھا… میں نے انہیں دیکھا… یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری جانب انکا دیکھنا کیوں ضروری تھا۔ میں نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔ آسی صاحب نے اپنا قلم ایک طرف رکھا اور کرنل صاحب کے دفتر کا فون ملاتے ہی میری خواہش پیش کر دی۔ چنانچہ اگلے ہی لمحے ہم جناب احمد ندیم قادری کے دفتر میں تھے جہاں محترم شفیق سلطان پہلے سے موجود تھے کرنل صاحب نے اچھی خاصی تواضع کر دی۔ کرنل صاحب کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ سعید آسی صاحب کے میری طرح وہ بھی بڑے فین ہیں… انگلستان کے حوالہ سے اخباری صنعت کی ترقی۔ صحافیوں کے مسائل نوائے وقت سے میری درینہ وابستگی‘ محسن صحافت ڈاکٹر مجید نظامی سے کی گئی ملاقاتیں‘ میرے کالم ’’ولایت نامہ‘‘ کی پسندیدگی اور مخصوص سرکاری اور نیم سرکاری حلقوں میں مقبولیت سمیت ایڈیٹر محترمہ رمیزہ صاحبہ کی خدمات اور پاکستان میں اخباری صنعت کے بڑھتے مسائل اور بحران پر بھی گفتگو ہوئی۔ قدرے توقف کے بعد بولے! ہاں! آسی صاحب اور آپکی طرح جرنلسٹ نہیں… تا ہم علمی تحقیقات اور ترقی یافتہ ممالک کے صدیوں پرانے رازوں کو تلاش کرنے کا شوق ضرور پال رکھا ہے… جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رکھے ہوئے ہوں۔سلسلہ وار تحقیقاتی مضامین تو پھر آپ لکھتے ہونگے۔ میں نے پوچھا! جی ہاں! ایک قسط وار سلسلہ کا آغاز کر رکھا ہے۔ جو نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں ہر ماہ کے پہلے اتوار کو شائع ہوتا ہے۔ وقت کی آپ کو قید نہ ہو تو مجھے ’’ولایت نامہ‘‘ میں اس بارے میں ضرور آگاہ کریں۔ میگزین کی چند کاپیاں مجھے دیتے ہوئے انہوں نے کہا! کرنل صاحب نے شاہراہ ریشم THE LAND OF SILK اور BELT AND RO TO CORE DOOR پر معلوماتی تاریخی اور باالخصوص نئی نسل کو پاک چین دوستی کے تاریخی حقائق فراہم کرنے کا ایک ایسا غیر معمولی معرکہ سرانجام دیا ہے۔ پہلی 8اقساط پرھنے کے بعد مجھے یہ بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ اس عملی اور تاریخی محاذ پر بھی کرنل صاحب کو اپنی تمام تر قوت ایمانی کے ساتھ ایک قلمی جنگ لڑنا پڑی ہے ۔پاک چین دوستی کے حوالے سے شاہراہ ریشم اور چین پاک اقتصادی راہداری پر لکھے انکے اس تحقیقی مقالہ کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ انکی ان اقساط کے معاملہ سے ایک عام قاری ہی نہیں ‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ مستقبل میں ان اقساط کو اگر ایک کتاب میں ضم کر لیا جائے تو سی ایس ایس اور پی ایچ ڈی طلبہ کیلئے یہ ایک نادر تحفہ ہو گا۔ میری رائے میں ’’سی پیک‘‘ کو سمجھنے سے قبل ’’شاہراہ ریشم‘‘ اور اس کی بیلٹ اینڈ رو ڈپٹی کے بارے میں جاننا ضروری ہے تاریخ کے جھرکوں میں HAWN DYNESTY شاہی خاندان کا نام موجود ہے اور یہی وہ خاندان ہے جس نے شاہراہ ریشم کو شاہی شاہراہ کے طور پر استعمال کیا۔ یہ شاہراہ چین اور سلطنت روم کے درمیان دوسری صدی میں قائم ہوئی جس کی لمبائی 7ہزار کلومیٹر تھی۔ جرمن فلاسفر FRIDNANED نے اس شاہراہ کو پہلی بار SILK ROUTESاور SILK ROAD سے بیان کیا تاریخ کے مطابق 19ویں صدی میں یہ نام سامنے آیا۔ اسی طرح سویڈن کے جیوگرافر ایس اے ہیڈن‘ مارکوپولو ار بعدازاں یونانی ہیٹو این ’’ہیرڈوٹس‘‘ نے بھی شاہراہ ریشم کے حوالہ سے مغرب سے مشرق کی جانب روانہ کی گئی ایشیا کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ۔شاہراہ ریشم کئی مرتبہ کھلی اور کئی مرتبہ بند بھی ہوئی۔ ’’ہان خاندان‘‘ کے شہنشاہی دور یہ اسے تیار کیا گیا مگر سلطنت تھانگ نے اسے 633میں دوبارہ کھولا۔ دوبارہ 678ء میں یہ شاہراہ بند کر دی گئی مگر 699میں چار فوجی چھاونیاں دوبارہ فتح کرنے کے بعد اسے شہنشاہ ’’وو‘‘ نے دوبارہ کھول دیا۔اسی طرح 722میں تبت سے براستہ گلگت ایک بڑا روٹ نکالا گیا جسے 737میں تبتیوںنے فتح کر لیا بعد ازاں تھانگ خاندان کے جنرل گائوشیانری نے اس روٹ کو دوبارہ حاصل کر لیا۔مقبوضہ کشمیر میں نہتے بچوں‘ عورتوں‘ نوجوانوں اور بوڑھوں پر بھارتی افواج کے بہیمانہ مظالم اور کرفیو کے 110ایام نے بڑی طاقتوں کی تا ہنوز خاموشی پر سوالیہ نشان لگا رکھا ہے اس لئے برطانوی کشمیری اپنے محدود وسائل کے باوجود بھارتی جارحیت کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند رکھے ہوئے ہیں ہائی کمیشن پاکستان کے زیر اہتمام اگلے روز لندن میں بھارتی مظالم کے خلاف BLACK DAY SEMINAR میں کشمیریوں سمیت غیر ملکی شخصیات نے شرکت کی جس میں جموں کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے صدر ڈاکٹر سید نذیر گیلانی‘ حریت کانفرنس کی رہنما مشال ‘ رکن یورپی پارلیمنٹ ANTNIA انسانی حقوق کے اقوام متحدہ میں جج BEN AMERSON پروفیسر نذیر مشال‘ عظمیٰ رسول اور پاکستانی ہائی کمشنر محمو نفیس زکریا نے خصوصی خطاب کیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38