آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے کامیاب امریکی دورے سے پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت کی طرف سے آج تک کیے گئے کامیاب امریکی دوروں کی تعداد میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔کاش کے ان تمام کامیاب دوروں سے پاکستانی عوام کی کامیابیوں میں بھی اسی طرح اضافہ ہوتا۔آخر عوامی کامیابی کسے کہتے ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستان جیسے ملک میں جمہوری حکومتوں کی مضبوطی اور معیشت کو سہارا ہی عوام کی کامیابی ہے۔بظاہر وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ سے یہ دونوں کامیابیاں عوام کو دیکھنے کو نہیں ملیں ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ سے وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے یعنی جمہوری حکومت غیر مﺅثر اور کمزور نظر آئی۔یقینا یہ کوئی عوامی کامیابی والی بات نہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ طویل علاج کے بعد مرض کی نشانیاں اچانک ہی نمودار ہو کر جمہوریت کے مریض کو نئے سرے سے علاج کروانے پر مجبور کر دیتی ہیں مگر شاید نقص علاج میں ہی ہے۔جمہوریت کے مریض کے محض سانس لیتے رہنے کو تندرستی سمجھا جاتا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کی مدت پوری ہونا ہمیشہ سے جمہوریت کی کامیابی سمجھا گیا۔
ہمارے سیاسی آباﺅ اجداد نے جو بویا وہ آج ہم کاٹ رہے ہیں اور جو آج ہم بو رہے ہیں وہ ہماری آئندہ نسلیں کاٹیں گی۔ہمارے تین وزیراعظم قتل ہوئے، ملک ٹوٹ گیامگر فوجی آمریت اور آمرانہ سیاسی سوچ نے ہماری سیاست اور جمہوری نظام کا بیڑہ غرق کر دیا۔پھر بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔پاکستان بننے کے 68سال بعد بھی ہماری قوم کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور آئینی ادارے نا اہل اور کمزور ہیںجبکہ عسکری قیادت با لواسطہ یا بلا واسطہ اقتدار میں رہ کر درست فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔صورتحال یہ ہے کہ حکمرانوں کے پیش نظر اپنی مدت حکمرانی پوری کرنا ہے چاہے اس کیلئے بوٹ چاٹنے پڑیں یا ناک سے لکیریں نکالنی پڑیں۔ عوام خود بھی قصوروار ہیں۔آج بھی عام عوام اپنے سیاسی حق کیلئے از خود جمہوری انداز میں حکمرانوں کا احتساب کرنے کی بجائے عدالت میں بیٹھے افتخار محمد چوہدری جیسے طاقتور چیف جسٹس کے سیاسی بیانات پر لڈی ڈالتے ہیں یا حکومت کے ساتھ مقبولیت کا مقابلہ کرنےوالے فوجی سپہ سالاروں کی وجاہت اور مﺅثر عسکری آپریشن کو بنیاد بنا کر آئینی اداروں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔
اسکی وجہ شاید ہمارا ماضی بھی ہے جس میں آمریت کے طفیلیوں نے اپنی آئندہ نسل کی جو تربیت کی تھی وہ رنگ لا رہی ہے۔ان طفیلی خاندانوں کی نسلیں اپنی آمریت پرست آباﺅ اجداد کے مشن کو بڑی ڈھٹائی سے آگے لے کر بڑھ ر ہی ہیں جن میں سیاست دان ، وکلاءاور حتیٰ کہ صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ چند معزز اور پڑھے لکھے مگر کمزور دل عدم تحفظ کا شکار سیاست دان و دانشور حضرات بھی ایسے میں جمہوریت اور آمریت کا موازنہ کرنے پرمائل نظر آتے ہیں۔ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نوجوان نسل کی جمہوریت کےخلاف ذہن سازی کی جا رہی ہے۔
خود پرستی کہیں ، انا پرستی گردانیں یا اقتدار پرستی سمجھیں ، میڈیا کے ذریعے جمہوریت اور منتخب سیاسی و آئینی اداروں کو نیچا دکھانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہ ہمارے جمہوری مستقبل کیلئے اچھی خبر نہیں۔آمریت پسندی کا جو بیج ہماری نوجوان نسل کے ذہن میں بویا جا رہا ہے اس کا شعوری یا لاشعوری طور پر براہ راست اثر ہمارے عسکری اداروں کے عام اہلکاروں پر بھی ہو رہا ہے۔ان حساس اداروں میں ہر سطح پر یہ سوچ پیدا کی جا رہی ہے کہ ہمارے سیاست دان اور سیاسی ادارے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لائق نہیں۔اس سوچ اور بحث کی پرورش کسی بھی پیشہ ور اور ضابطوں کے ماتحت اداروں کیلئے مناسب نہیں ہوتی۔ایسے حالات میں حساس اداروں کی آئینی نگرانی اور کنٹرول وزیراعظم اور کابینہ کی آئین اور انکے حلف کے تحت اہم ترین ذمہ داری ہے اور اس سے روگردانی ایک سنگین خلاف ورزی ہو گی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے آرمی چیف کے دورہ امریکہ سے متعلق بیانات کسی بھی سیاسی حکومت کیلئے باعث شرمندگی ہونے چاہئیں۔ وزیر دفاع کا یہ کہنا کہ آرمی چیف کو بیرونی دوروں کیلئے حکومتی منظوری کی ضرورت نہیں اور چوہدری نثار کا یہ بیان کہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ کیلئے وزیراعظم سے باقاعدہ منظوری لی گئی اس پروپیگنڈے کو تقویت دیتا ہے کہ سیاست دان حکمرانی کی اہلیت نہیں رکھتے۔زیادہ سنگین صورتحال یہ بھی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان نے اپنے کردار کی کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہوئے اپنے اراکین پارلیمنٹ کو سول ملٹری تعلقات سے متعلق بیان بازی یا بحث سے بھی روک دیا ہے اور ایک تیسری جماعت تحریک انصاف جس کو پاکستان کا مستقبل بھی سمجھا جاتا رہا ہے اس نے پہلے ہی "ایمپائر کی انگلی" اپنا سیاسی انتخابی نشان بنا رکھی ہے۔ ایسے سیاست دانوں اور انکے ہمدرد تجزیہ نگاروں کے نزدیک ہمارے آرمی چیف کا امریکہ میں انٹیلی جنس کمیٹی کے امریکی اراکین کانگریس سے ملنا اور امریکہ کے نائب صدر سے طویل مذاکرات انکی کامیابی اور وزیراعظم کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ فوج کے ترجمان کے بیان کےمطابق امریکی نائب صدر سے ملاقات میں ©"عوامی رابطوں" اور "معیشت " سے متعلق تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی سیاست دانوں سے اور کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی کے اراکین سے ملاقات اگر ہمارے لیے قابل فخر اور کامیابی کا معیار ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم اپنی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹیوں اور اپنے ملک کے وزیراعظم کو بھی اتنی عزت اور اتنا ہی وقت دیں جس کے وہ آئینی طور پر حقدار ہیں۔
امید ہے کہ امریکی کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی کی طرز پر پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی ایسی انٹیلی جنس کمیٹی کے قیام کی حمایت کی جائے گی کہ جہاں ہمارے خفیہ اداروں اور فوج کے سربراہان "عوامی رابطوں" اور "معیشت "سے متعلق اتنی ہی تفصیل سے گفتگو فرمائیں گے۔ کاش کبھی امریکی سی آئی اے اور فوج کے سربراہان ہماری پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے بھی اسی طرح پیش ہوں اور کم از کم ایبٹ آباد میں امریکی حملے اور قبائلی علاقوں میں جاری ڈرون حملوں سے متعلق اظہار خیال فرمائیں۔ حیرت ان تجزیہ کاروں پر ہے کہ جو آرمی چیف کے دورے کا موازنہ وزیراعظم کے دورے سے کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ امریکی حکام نے عسکری قیادت کے دورے کو زیادہ اہمیت دی۔
اگر ایسا ہوا بھی ہے تو کیا یہ بات قابل فخر ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو امریکی حکام کی طرف سے "اہمیت " نہ دی جائے ۔امریکی حکام بھی کیا کریں جب ہمارے ادارے خود ہی منتخب حکومتوں کو نیچا دکھانے کیلئے متنازعہ بیان جاری کرینگے تو پھر دوسروں سے کیا گلہ اور اسی طرح جب ہماری حکومتیں خود ہی اپنے آئینی اختیار جتانے کی ہمت نہیں کریں گی تو دوسری حکومتیں ان کا احترام کیونکر کریں گی۔سیاسی افیون کی کاشت جاری ہے اور اس کا "فائدہ"یہ ہو گا کہ ہماری آئندہ نسلوں کا مورال (حوصلہ) آسمانوں پر ہو گا (upto sky sir! ) ۔ مگر شاید سیاسی افیون کی کاشت پر کبھی پابندی نہ لگ سکے ۔ ہمارے کالجز اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین پر پابندی برقرار رہے گی ، سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کا قبضہ جاری رہے گا، آئین سے سنگین غداری کرنے والوں کی سنگینیں نوکدار رہیں گی، بوڑھے سیاست دان اپنے آخری وقت میں کچھ تبدیلی نہ لانا چاہیں گے، اور ایک وقت آئیگا کہ جب ہماری وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کی اوقات وہی ہو گی جو آج ہماری وزارت دفاع کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تب بھی ناکامی کے سرٹیفکیٹسحکومتی کوڑے دان میں اور کامیابی کے تمغے تمغہ ءجمہوریت کے ساتھ سجائے جائینگے۔یقینا آرمی چیف کا دورہ امریکہ بہت کامیاب رہا مگر کس کیلئے ا س کا جواب ہمیشہ کی طرح کوئی تاریخ دان ہی دے سکے گا۔ ویسے بھی ہماری سیاست اور صحافت میں آرمی چیف کے غیرملکی دورے کو کامیاب قرار دینا اور منتخب وزیراعظم کے غیرملکی دورے کو ناکام کروانا ثواب دارین ہے ورنہ پھر غداری یا کفر کے فتوے ہر وقت دستیاب ہیں۔