جنابِ حافظ حسین احمد رات وقت نیوز ٹی وی نیٹ ورک پر جلوہ گر ہوئے اور ’اگلا قدم‘ دھرتے ہی زیب و زینتِ دل و نگاہ ہو گئے!
انہوں نے فرمایا ’پاکستان پیپلزپارٹی کسی کے ختم کرنے سے ختم نہیں ہوئی! البتہ یہ جناب آصف علی زرداری کے وار سے بچتی نظر نہیں آتی!‘
جنابِ حافظ حسین احمد نے کہا ’بلوچستان کا نوجوان دیوار سے لگایا بلکہ دیوارمیں چُنا جا رہا ہے!‘ انہوں نے ’بلوچستان پیکج‘ کے حوالے سے اٹھائے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ’بلوچستان کے سابق گورنر، بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور پاکستان کے سابق وفاقی وزیر نواب محمد اکبر بگٹی کے دِل خراش انجام کی داستان رِقم کرتے وقت مستقبل پر اس دِل خراش صورتحال کے ممکنہ اثرات کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا گیا!‘ اور انہوں نے تاریخی موڑ پر جناب پرویز مشرف کے ”سفاکانہ روئیے“ اور ’سیاہ تر کردار‘ کا ذکر کچھ اس دل دوز لہجے میں کیا کہ پروگرام کے میزبان جنابِ سلمان غنی کی آنکھوں میں بھی ’نم‘ چمک اٹھا!
جنابِ حافظ حسین احمد سے پوچھا گیا ’جناب اکبر بگٹی کے خلاف آخری کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کارروائی کے ’بھیانک نتائج‘ پر کیوں غور نہیں کیا گیا؟‘ تو جنابِ حافظ حسین احمد نے صرف ایک لفظ کہا ’کمانڈو!‘
”کمانڈو سوچا نہیں کرتے!“ کہے بغیر وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کیونکہ وہ بات بہت ذہانت سے کرتے ہیں اور لہجے میں وہ بات رکھ دیتے ہیں جس کے لئے لوگ لفظ استعمال کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ جناب حافظ حسین احمد کا یہی کمال جناب پرویز مشرف کے ”سیاہ تر دور“ میں بھی ہمارے لئے وجہ تسلی رہا! ان کے ہونٹوں پر جگمگاتی مسکراہٹ اور ذہین جملے، ’ذہن و دل‘ کی تازگی کا سروسامان رہے!
جنابِ حافظ حسین احمد نے دوبئی میں جنابِ پرویز مشرف اور محترمہ بینظیر بھٹو کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’میثاقِ جمہوریت تو اُسی روز ختم ہو گیا تھا!‘ کیونکہ میثاقِ جمہوریت کے مطابق دونوں فریق اور باقی جماعتوں کے لئے جنابِ پرویز مشرف اور ان کے باوردی نمائندوں سے بات کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی! یہ گفتگو اور اس گفتگو میں طے پانے والے ’معاہدے‘ کو ”میثاقِ جمہوریت کی عملی تنسیخ“ کے درجے پر فائز کر دینے کے بعد انہوں نے فرمایا ’لیکن 3 نومبر کے اقدامات کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو ’معاہدے پر فاتح نہیں رہیں‘ اور انہوں نے عوام کی آواز پر لبیک کہہ کر انصاف کا پرچم بلند کر دیا!‘ اور ہمارے ذہن میں مہاراجہ پرویز مشرف کا یہ فقرہ گونج اُٹھا، ’بینظیر بھٹو محض یوں انجام پر پہنچا دی گئیں کہ وہ ’ایجنڈے‘ سے ہٹ گئیں!‘ گویا نواب محمد اکبر بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے لہو کی لکیریں ایک ہی ’سیاہ کردار‘ کی طرف ’انگشت نما‘ ہیں! ’بینظیر بھٹو اپنے ایجنڈے سے ہٹ گئی تھیں!‘ ہمیں یہ جملہ بار بار یاد آرہا ہے!
کمانڈو صدور نے ’بھٹو‘ کے قتل پر بھی ’کل‘ پرنگاہ نہ رکھی اور ہمیں شرط ہروا کر دم لیا، نواب اکبر بگٹی کے قتل پر بھی ’کل‘ کی طرف کسی نے نہ دیکھا اور بینظیر کے قتل پر بھی ’کل‘ کا رُخ کسی کی نگاہ میں نہ رہا! اس تمام صورتحال کے دوران بھی ’کل‘ پر بات کرنا کسی کی زبان کا مقدر نہیں بن رہا!
جنابِ حافظ حسین احمد نے ”ایم ایم اے“ یعنی ”متحدہ مجلسِ عمل“ پربات کرتے ہوئے مستقبل میں اسے دوبارہ فعال ہوتے دیکھا تو ہمیں جناب مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں کے چھالے یاد آ گئے! وہ جنابِ پرویز مشرف کی ’وطن واپسی‘ کی راہ میں اٹکائے گئے روڑے ہٹا ہٹا کر تقریباً ہلکان ہو چکے ہیں ”منہ کالا تے نیلے پیر“ کئے جناب پرویز مشرف کے ’احسانات‘ کا بدلہ چکاتے چکاتے وہ یہ ”معاملہ“ بھی ”مستقبل کے حوالے“ کر سکتے ہیں اور یہ معاملہ ’ہماری اور ان کی زندگی‘ میں کبھی طے نہیں ہونے دیں گے! رہ گیا مستقبل بعید تو وہ ’مشرقِ بعید‘ کی طرح ہماری ’جانچ، پرکھ، پرچول‘ سے ہمیشہ خارج رہا، حالانکہ جاپان اور کوریا اور اب ویت نام بھی ہماری پشت پناہی پر کمربستہ ہیں! اور یہ تینوں معیشتیں ’مشرقِ بعید‘ کے ساتھ ساتھ ’عالمی بازاروں‘ پر اثرانداز ہوتی دکھائی دے رہی ہیں!
’متحدہ مجلسِ عمل‘ بھی ’مستقبل بعید‘ کی کوئی ’معیشی قوت‘ بن جائے تو بن جائے! یہ ’مستقبل بعید تر‘ میں بھی دوبارہ سیاسی قوت بننے کا کوئی امکان نہیں رکھتی! جناب حافظ حسین احمد یہ بات ہم سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں! یہ بات بھی ان کے ہونٹوں پر ایک ”مسکراتی تحریر“ کی طرح کھلنے والی ہے! ایک ”مسکراتی سرخی“ سحرکار اور سحرآثار سرخی! جس کا لبِ جاناں سے چھوٹنا ممکنات میں نہیں!
انہوں نے فرمایا ’پاکستان پیپلزپارٹی کسی کے ختم کرنے سے ختم نہیں ہوئی! البتہ یہ جناب آصف علی زرداری کے وار سے بچتی نظر نہیں آتی!‘
جنابِ حافظ حسین احمد نے کہا ’بلوچستان کا نوجوان دیوار سے لگایا بلکہ دیوارمیں چُنا جا رہا ہے!‘ انہوں نے ’بلوچستان پیکج‘ کے حوالے سے اٹھائے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ’بلوچستان کے سابق گورنر، بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور پاکستان کے سابق وفاقی وزیر نواب محمد اکبر بگٹی کے دِل خراش انجام کی داستان رِقم کرتے وقت مستقبل پر اس دِل خراش صورتحال کے ممکنہ اثرات کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا گیا!‘ اور انہوں نے تاریخی موڑ پر جناب پرویز مشرف کے ”سفاکانہ روئیے“ اور ’سیاہ تر کردار‘ کا ذکر کچھ اس دل دوز لہجے میں کیا کہ پروگرام کے میزبان جنابِ سلمان غنی کی آنکھوں میں بھی ’نم‘ چمک اٹھا!
جنابِ حافظ حسین احمد سے پوچھا گیا ’جناب اکبر بگٹی کے خلاف آخری کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کارروائی کے ’بھیانک نتائج‘ پر کیوں غور نہیں کیا گیا؟‘ تو جنابِ حافظ حسین احمد نے صرف ایک لفظ کہا ’کمانڈو!‘
”کمانڈو سوچا نہیں کرتے!“ کہے بغیر وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کیونکہ وہ بات بہت ذہانت سے کرتے ہیں اور لہجے میں وہ بات رکھ دیتے ہیں جس کے لئے لوگ لفظ استعمال کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ جناب حافظ حسین احمد کا یہی کمال جناب پرویز مشرف کے ”سیاہ تر دور“ میں بھی ہمارے لئے وجہ تسلی رہا! ان کے ہونٹوں پر جگمگاتی مسکراہٹ اور ذہین جملے، ’ذہن و دل‘ کی تازگی کا سروسامان رہے!
جنابِ حافظ حسین احمد نے دوبئی میں جنابِ پرویز مشرف اور محترمہ بینظیر بھٹو کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’میثاقِ جمہوریت تو اُسی روز ختم ہو گیا تھا!‘ کیونکہ میثاقِ جمہوریت کے مطابق دونوں فریق اور باقی جماعتوں کے لئے جنابِ پرویز مشرف اور ان کے باوردی نمائندوں سے بات کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی! یہ گفتگو اور اس گفتگو میں طے پانے والے ’معاہدے‘ کو ”میثاقِ جمہوریت کی عملی تنسیخ“ کے درجے پر فائز کر دینے کے بعد انہوں نے فرمایا ’لیکن 3 نومبر کے اقدامات کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو ’معاہدے پر فاتح نہیں رہیں‘ اور انہوں نے عوام کی آواز پر لبیک کہہ کر انصاف کا پرچم بلند کر دیا!‘ اور ہمارے ذہن میں مہاراجہ پرویز مشرف کا یہ فقرہ گونج اُٹھا، ’بینظیر بھٹو محض یوں انجام پر پہنچا دی گئیں کہ وہ ’ایجنڈے‘ سے ہٹ گئیں!‘ گویا نواب محمد اکبر بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے لہو کی لکیریں ایک ہی ’سیاہ کردار‘ کی طرف ’انگشت نما‘ ہیں! ’بینظیر بھٹو اپنے ایجنڈے سے ہٹ گئی تھیں!‘ ہمیں یہ جملہ بار بار یاد آرہا ہے!
کمانڈو صدور نے ’بھٹو‘ کے قتل پر بھی ’کل‘ پرنگاہ نہ رکھی اور ہمیں شرط ہروا کر دم لیا، نواب اکبر بگٹی کے قتل پر بھی ’کل‘ کی طرف کسی نے نہ دیکھا اور بینظیر کے قتل پر بھی ’کل‘ کا رُخ کسی کی نگاہ میں نہ رہا! اس تمام صورتحال کے دوران بھی ’کل‘ پر بات کرنا کسی کی زبان کا مقدر نہیں بن رہا!
جنابِ حافظ حسین احمد نے ”ایم ایم اے“ یعنی ”متحدہ مجلسِ عمل“ پربات کرتے ہوئے مستقبل میں اسے دوبارہ فعال ہوتے دیکھا تو ہمیں جناب مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں کے چھالے یاد آ گئے! وہ جنابِ پرویز مشرف کی ’وطن واپسی‘ کی راہ میں اٹکائے گئے روڑے ہٹا ہٹا کر تقریباً ہلکان ہو چکے ہیں ”منہ کالا تے نیلے پیر“ کئے جناب پرویز مشرف کے ’احسانات‘ کا بدلہ چکاتے چکاتے وہ یہ ”معاملہ“ بھی ”مستقبل کے حوالے“ کر سکتے ہیں اور یہ معاملہ ’ہماری اور ان کی زندگی‘ میں کبھی طے نہیں ہونے دیں گے! رہ گیا مستقبل بعید تو وہ ’مشرقِ بعید‘ کی طرح ہماری ’جانچ، پرکھ، پرچول‘ سے ہمیشہ خارج رہا، حالانکہ جاپان اور کوریا اور اب ویت نام بھی ہماری پشت پناہی پر کمربستہ ہیں! اور یہ تینوں معیشتیں ’مشرقِ بعید‘ کے ساتھ ساتھ ’عالمی بازاروں‘ پر اثرانداز ہوتی دکھائی دے رہی ہیں!
’متحدہ مجلسِ عمل‘ بھی ’مستقبل بعید‘ کی کوئی ’معیشی قوت‘ بن جائے تو بن جائے! یہ ’مستقبل بعید تر‘ میں بھی دوبارہ سیاسی قوت بننے کا کوئی امکان نہیں رکھتی! جناب حافظ حسین احمد یہ بات ہم سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں! یہ بات بھی ان کے ہونٹوں پر ایک ”مسکراتی تحریر“ کی طرح کھلنے والی ہے! ایک ”مسکراتی سرخی“ سحرکار اور سحرآثار سرخی! جس کا لبِ جاناں سے چھوٹنا ممکنات میں نہیں!