اسلام آباد (آن لائن) آڈیٹر جنرل کی طرف سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی سال 2003ء تا 2008ء کی پیش کی جانے والی خصوصی آڈٹ رپورٹ میں 6 ارب روپے کے لگ بھگ کی مالی باضابطگیوں کے انکشافات پر قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ان مالی بے ضابطگیوں کے ذمہ داران چاہے وہ ملک میں ہیں یا بیرون ملک ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ بورڈ کی سابقہ انتظامیہ نے بورڈ کو ایک دکان کی طرح چلایا، موجودہ انتظامیہ ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے آڈیٹر ٹیم کی معاونت کرے جو تعاون نہیں کرے گا اس کیلئے کمیٹی تبادلے‘ معطلی اور گرفتاری تک کے احکامات جاری کر سکتی ہے۔ قومی خزانے میں کسی قسم کی مالی بے ضابطگی ناقابل برداشت ہے جبکہ آڈیٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ بورڈ کے پاس جاری کردہ فنڈ‘ رقوم کے حوالے سے کوئی دستاویز موجود نہیں ہیں جبکہ کروڑوں روپے کے ٹھیکے بغیر ٹینڈر جاری کرنے کے علاوہ سابق انتظامیہ (نسیم اشرف اور توقیر ضیائ) نے زبانی احکامات پر لاکھوں روپے مختلف افراد کو دیئے جن کی کوئی قانونی دستاویز موجود نہیں ہے۔ ہفتہ کے روز پارلیمنٹ ہائوس میں چوہدری نثار علی خان کی صدارت میں پی اے سی کے منعقدہ اجلاس میں پی سی بی کے مالی سال 2003ء تا 2008ء کی خصوصی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو اس آڈٹ بارے بریف کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل نے بتایاکہ کرکٹ بورڈ نے آڈٹ ٹیم کے ساتھ تعاون نہیں کیا بورڈ نے اعتراض کیا کہ آڈٹ اس بات کا مجاذ نہیں کہ بورڈ کا جائزہ لے انتظامیہ آڈٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی بہت سے مالی معاملات میں ایڈھاک کمیٹی کی منظوری نہیں لی گئی۔ 112 اہم حسابات کے حوالے سے بورڈ کے پاس دستاویز تک موجود نہیں ہیں۔ ان حالات میں آڈٹ کرنے میں شدید مشکلات پیش آئیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری کھیل اور چیئرمین کرکٹ بورڈ سے وضاحت طلب کی تو انہوں نے موقف اختیار کیا کہ بورڈ کے پاس جو دستاویز دستیاب تھیں وہ فراہم کی گئی ہیں سابقہ انتظامیہ نے زیادہ تر رقوم کا اجراء زبانی کلامی احکامات پر کیا گیا جس کے بارے میں وہ کچھ بتانے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ بھی ان معاملات سے ابھی لاعلم ہیں کمیٹی نے اس پر ہدایات جاری کیں کہ تمام معاملات کا ایک بار پھر ڈیپارٹمنٹل اکائونٹس کمیٹی میں جائزہ لیا جائے بورڈ تمام معاملات اور قانونی پہلوئوں کے حوالے سے تحفظات دور کرکے کمیٹی کو دو ماہ میں رپورٹ کرے کمیٹی کو بتایا گیا کہ بورڈ کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ آڈٹ کو جو دستاویز درکار ہیں وہ فراہم کی جائیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے آئین کے حوالے سے کمیٹی نے مختلف امورکا جائزہ لیا اور وزارت کھیل اور بورڈ سے کہا کہ وہ جلد از جلد نیا آئین تشکیل دیں۔ بورڈ کے حسابات کے حوالے سے آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ سابق کپتان انضمام الحق کو ایک کروڑ روپے کا انعام زبانی احکامات پر دیا گیا اس حوالے سے تحریری دستاویز موجود نہیں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں رہائش اختیار کرنے والے 248 افراد سے کرایہ نہیں لیا گیا جبکہ سابق چیئرمین نے 61 لاکھ روپے معاف کردیئے قذافی کرکٹ سٹیدیم میں دکانوں کو ارزاں نرخوں پر کرایہ پر دیا گیا ان دکانداروں سے چوبیس ملین روپے وصول نہیں کئے گئے کراچی اور لاہور کے سٹیڈیم میں خصوصی مہمانداری بکٹس بغیر بولی کے الاٹ کئے گئے بورڈ نشریاتی اداروں سے تاحال بارہ ملین روپے وصول کرنے میں ناکام رہا ملک میں 33 گرائونڈ کی تعمیر کیلئے 65 ملین جاری کئے مگر گرائونڈز کی حالات زار نہیں بدلی غیر ملکی کرکٹ اکیڈمی سے 2003ء کے واجب ادا 802 ملین روپے وصول نہیں کئے گئے ایک ایسے منصوبے کیلئے کنسلٹنٹ کو 71 لاکھ روپے ادا کئے جو کاغذات میں ہی ختم ہوگیا کٹ بیگ خریدنے کے ٹینڈر میں 40 لاکھ روپے کی بے ضابطگی کی گئی 45 لاکھ روپے کی مالیت سے کرکٹ ہسٹری بک کی اشاعت کی گئی جو کہ آج تک سٹور پر پڑی ہوئی ہیں بورڈ نے اپنے قانونی ماہر ہوتے ہوئے مختلف کیسوں میں نجی قانونی ماہرین کی خدمات حاصل کی جن کو دس ملین روپے ادا کئے گئے بورڈ نے مختلف فرموں کو 148 ملین روپے دیئے جن کا کوئی دستاویزی ثبوت دستیاب نہیں 43 ملین روپے کی لاگت سے بائیو مکینیکل مشین خریدی جو استعمال میں تاحال نہیں لائی گئی نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کی 58 ایکڑ زمین دیگر اداروں کو ارزاں نرخوں پر دے دی گئی جس سے بورڈ کو 58 ارب روپے کا نقصان ہوا اس کے علاوہ آڈٹ نے کروڑوں روپے مالیت کی دیگر مالی بے ضابطگیوں کے بارے میں رپورٹ کمیٹی کو پیش کی چیئرمین کمیٹی چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ کمیٹی کسی بھی صورت ایک روپے کی کرپشن بھی برداشت نہیں کرے گی اس کے ذمہ دار چاہے ملک میں موجود ہوں یا بیرون ملک چلے گئے ہوں سب کو طلب کیا جاسکتا ہے۔ ہم کسی ادارے کو چلانے کیلئے نہیں بیٹھے ہم صرف شفافیت چاہتے ہیں۔ کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری افسر کا تبادلہ‘ اسے معطل کیا کسی کو بھی گرفتار کرنے کا حکم رکھتی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024