نصرت مرزا ۔۔۔
پاکستان سخت دہشت گردی کی زد میں آیا ہوا ہے، یہ لڑائی جو امریکہ کے خلاف تیار ہوئی تھی وہ امریکہ نے کمال ہوشیاری کے ساتھ پاکستان پر پلٹ دی ہے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ نے حالیہ دورئہ پاکستان میں کہا کہ وہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیں گے، اِس جملہ سے کئی اور مطالب بھی نکلتے ہیں، تاہم اس وقت ہم اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔ امریکہ 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ افغانستان کی کل آبادی کا پشتون 60 فیصد سے زیادہ ہیں، باقی میں افغانستان میں رہائش پذیر افغانی، ازبک، تاجک اور دیگر نسل کے لوگ ہیں۔ امریکہ نے شمالی اتحاد کی مدد سے افغانستان کے طالبان کو جو کسی فوج کی تعریف کے زمرے میں نہیں آتے تھے شکست دی۔ اس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ جس کے نتیجے میں تاریخی و روایتی افغانی جنگ آزادی شروع ہوئی اور ایک غیرملکی قابض طاقت کے خلاف جہاد کا اعلان افغانستان کے علماءکرام نے کیا۔ اس اعلان نے پاکستان کے پشتون بیلٹ میں بھی اپیل پیدا کی۔
پاکستان میں رہائش پذیر پشتون، افغانی پشتونوں کے درمیان رشتہ داری اور تعلق داری، ڈیونڈر لائن کے باوجود ہمیشہ رہی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد بس نام کے طور پر تھی، اس لئے وہ آتے جاتے رہتے تھے اور ایک دوسرے سے رشتہ ناطے سرحدوں کی موجودگی کے باوجود کرتے رہتے تھے۔ اُن کی روایات بھی یکساں تھیں، جنگجو ہونے کی وجہ سے آپس میں لڑتے بھی رہتے تھے، مگر افغانستان کے حملے نے اِن کو یکجا کردیا اور افغانستان پر امریکی قبضہ کے بعد وہ لڑنے افغانستان میں جانے لگے، اس پر امریکہ کو اعتراض ہوا تو جنرل پرویز مشرف نے تین تجاویز پیش کیں۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگا دی جائیں، جہاں باڑ نہ لگائی جاسکتی ہو وہاں بارودی سرنگیں بچھا دی جائیں اور افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیج دیا جائے، مگر یہ بات نہ امریکہ نے مانی اور نہ ہی افغانستان نے پھر امریکہ پاکستان کو مجبور کرتا رہا کہ وہ اپنے علاقے سے پشتونوں کو جہاد کے لئے جانے سے روکے اور اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کرے۔ جو افغانستان سے پاکستان میں آکر چھپ گئے ہیں، یہ علاقہ جس کو فاٹا کہا جاتا ہے اور جس کو مرکزی حکومت ایک اُس نظام کے تحت چلاتی ہے جو انگریز نے اپنے دورِ حکومت میں بنایا تھا۔ بہت مشکل علاقہ ہے، اِس کے بارے میں پاکستان کے پاس اطلاعات بھی کم تھیں، اس کے باوجود پاکستان نے امریکی دباﺅ پر اس علاقہ میں کئی آپریشن کئے اور وہاں سے کچھ دہشت گردوں کو مارا او رکچھ کو گرفتار کیا۔ پاکستان کے لئے یہ بہت مشکل کام تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو مارے، اس گومگو کے عالم میں کئی نئے واقعات نے جنم لیا۔
(1) جنرل پرویز مشرف کے اسلام آباد میں جامعہ حفصہ پر حملہ کرنے اور یتیم بچیوں کو مارنے کا سخت ردعمل ہوا، کچھ پشتونوں نے اِس وجہ سے ہتھیار اٹھا لئے۔
(2) جن لوگوں کے رشتہ دار مارے گئے تھے انہوں نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور حکومت پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے پشتونوں میں بدلہ لینے کی سخت روایت ہے اور بعض پشتون ایسے ہیں جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی ”بدلہ“ کی روایت کو نہیں چھوڑتے۔ اِس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ راقم 1974ءسے 1985ءتک اٹلی اور دوسرے ممالک میں بہ سلسلہ ملازمت رہا، اِس دوران ایک پاکستانی فیملی سے تعلق داری ہوگئی، ایک روز اُن کے گھر گیا تو دیکھا کہ جیسے کوئی سنگین واقعہ ہوگیا ہو، ہر طرف مرگ کی خاموشی تھی، میاں، بیوی اور بچے چپ چاپ بیٹھے تھے، وجہ اصرارِ بسیار کے بعد خاتونِ خانہ یہ بتائی کہ اُن کے گاﺅں میں اُن کے میاں کے ایک رشتہ دار کا قتل ہوگیا ہے اور قبیلہ کے لوگوں نے پیغام بھیجا ہے کہ قتل ہونے والے کا قریب ترین رشتہ دار اُن کا شوہر ہے۔ اس لئے بدلہ لینے کی ذمہ داری اس کی ہے۔ ہمارے دوست جو ڈاکٹری کا پیشہ سے وابستہ تھے، اُن کے قبیلے والوں نے کہا کہ وہ گاﺅں آئیں اور بدلہ لیں، ڈاکٹر شوہر بضد تھے کہ جائیں جبکہ اُن کی بیوی اور بچے خلاف تھے، ہمارے دوست ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اُن کو جانا ہی پڑے گا۔ اس لئے وہاں موت کی سی خاموشی طاری تھی، میرے جانے سے اُن کے منہ چند منٹ کے لئے کھلے تھے اور جانے کے بعد حالت غم میں بند ہوگئے ہوں گے۔
پاکستان سخت دہشت گردی کی زد میں آیا ہوا ہے، یہ لڑائی جو امریکہ کے خلاف تیار ہوئی تھی وہ امریکہ نے کمال ہوشیاری کے ساتھ پاکستان پر پلٹ دی ہے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ نے حالیہ دورئہ پاکستان میں کہا کہ وہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیں گے، اِس جملہ سے کئی اور مطالب بھی نکلتے ہیں، تاہم اس وقت ہم اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔ امریکہ 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ افغانستان کی کل آبادی کا پشتون 60 فیصد سے زیادہ ہیں، باقی میں افغانستان میں رہائش پذیر افغانی، ازبک، تاجک اور دیگر نسل کے لوگ ہیں۔ امریکہ نے شمالی اتحاد کی مدد سے افغانستان کے طالبان کو جو کسی فوج کی تعریف کے زمرے میں نہیں آتے تھے شکست دی۔ اس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ جس کے نتیجے میں تاریخی و روایتی افغانی جنگ آزادی شروع ہوئی اور ایک غیرملکی قابض طاقت کے خلاف جہاد کا اعلان افغانستان کے علماءکرام نے کیا۔ اس اعلان نے پاکستان کے پشتون بیلٹ میں بھی اپیل پیدا کی۔
پاکستان میں رہائش پذیر پشتون، افغانی پشتونوں کے درمیان رشتہ داری اور تعلق داری، ڈیونڈر لائن کے باوجود ہمیشہ رہی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد بس نام کے طور پر تھی، اس لئے وہ آتے جاتے رہتے تھے اور ایک دوسرے سے رشتہ ناطے سرحدوں کی موجودگی کے باوجود کرتے رہتے تھے۔ اُن کی روایات بھی یکساں تھیں، جنگجو ہونے کی وجہ سے آپس میں لڑتے بھی رہتے تھے، مگر افغانستان کے حملے نے اِن کو یکجا کردیا اور افغانستان پر امریکی قبضہ کے بعد وہ لڑنے افغانستان میں جانے لگے، اس پر امریکہ کو اعتراض ہوا تو جنرل پرویز مشرف نے تین تجاویز پیش کیں۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگا دی جائیں، جہاں باڑ نہ لگائی جاسکتی ہو وہاں بارودی سرنگیں بچھا دی جائیں اور افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیج دیا جائے، مگر یہ بات نہ امریکہ نے مانی اور نہ ہی افغانستان نے پھر امریکہ پاکستان کو مجبور کرتا رہا کہ وہ اپنے علاقے سے پشتونوں کو جہاد کے لئے جانے سے روکے اور اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کرے۔ جو افغانستان سے پاکستان میں آکر چھپ گئے ہیں، یہ علاقہ جس کو فاٹا کہا جاتا ہے اور جس کو مرکزی حکومت ایک اُس نظام کے تحت چلاتی ہے جو انگریز نے اپنے دورِ حکومت میں بنایا تھا۔ بہت مشکل علاقہ ہے، اِس کے بارے میں پاکستان کے پاس اطلاعات بھی کم تھیں، اس کے باوجود پاکستان نے امریکی دباﺅ پر اس علاقہ میں کئی آپریشن کئے اور وہاں سے کچھ دہشت گردوں کو مارا او رکچھ کو گرفتار کیا۔ پاکستان کے لئے یہ بہت مشکل کام تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو مارے، اس گومگو کے عالم میں کئی نئے واقعات نے جنم لیا۔
(1) جنرل پرویز مشرف کے اسلام آباد میں جامعہ حفصہ پر حملہ کرنے اور یتیم بچیوں کو مارنے کا سخت ردعمل ہوا، کچھ پشتونوں نے اِس وجہ سے ہتھیار اٹھا لئے۔
(2) جن لوگوں کے رشتہ دار مارے گئے تھے انہوں نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور حکومت پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے پشتونوں میں بدلہ لینے کی سخت روایت ہے اور بعض پشتون ایسے ہیں جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی ”بدلہ“ کی روایت کو نہیں چھوڑتے۔ اِس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ راقم 1974ءسے 1985ءتک اٹلی اور دوسرے ممالک میں بہ سلسلہ ملازمت رہا، اِس دوران ایک پاکستانی فیملی سے تعلق داری ہوگئی، ایک روز اُن کے گھر گیا تو دیکھا کہ جیسے کوئی سنگین واقعہ ہوگیا ہو، ہر طرف مرگ کی خاموشی تھی، میاں، بیوی اور بچے چپ چاپ بیٹھے تھے، وجہ اصرارِ بسیار کے بعد خاتونِ خانہ یہ بتائی کہ اُن کے گاﺅں میں اُن کے میاں کے ایک رشتہ دار کا قتل ہوگیا ہے اور قبیلہ کے لوگوں نے پیغام بھیجا ہے کہ قتل ہونے والے کا قریب ترین رشتہ دار اُن کا شوہر ہے۔ اس لئے بدلہ لینے کی ذمہ داری اس کی ہے۔ ہمارے دوست جو ڈاکٹری کا پیشہ سے وابستہ تھے، اُن کے قبیلے والوں نے کہا کہ وہ گاﺅں آئیں اور بدلہ لیں، ڈاکٹر شوہر بضد تھے کہ جائیں جبکہ اُن کی بیوی اور بچے خلاف تھے، ہمارے دوست ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اُن کو جانا ہی پڑے گا۔ اس لئے وہاں موت کی سی خاموشی طاری تھی، میرے جانے سے اُن کے منہ چند منٹ کے لئے کھلے تھے اور جانے کے بعد حالت غم میں بند ہوگئے ہوں گے۔