چومسکی کی رائے مےں ترکی اگر چاہے تو اس خطے مےں اےک نماےاں آزاد کردار کا حامل ملک بن سکتا ہے لےکن اس کےلئے ترکی کو داخلی طور پر کچھ فےصلے کرنے ہونگے کےا وہ مغرب کا سامنا کر سکتا ہے اور ےورپےن ےونےن کےلئے قابل قبول ہو سکتا ہے؟ ےا کےا وہ حقےقت کو سمجھ سکتا ہے کہ ےورپی لوگ نسل پرست ہےں اور ترکوں کی ےونےن مےں شمولےت کو کبھی قبول نہےں کرےنگے اور اس کے داخلے مےں رکاوٹےں پےدا کرتے رہےں گے۔
2003 مےں جب ترکی نے عوام کے مطالبے پر عراق پر حملے مےں امرےکہ کا ساتھ نہےں دےا تھا تو ترکی نے واقعی اےک آزاد ملک کا حقےقی کردار ادا کےا تھا اور اس حملے کےخلاف اپنے عوام کی رائے کو اہمےت دی تھی۔ اٹلی اور سپےن نے اپنے عوام کی رائے کو عراق کےخلاف امرےکی جنگ کی سخت مخالف تھی اہمےت نہ دی امرےکی صدر جارج ڈبلےو بش کی حماےت کی اور اپنی فوجےں بھےج دیں۔
چنانچہ اٹلی اور سپےن کے مقابلے مےں ترکی زےادہ جمہوری ملک ہے جہاں عوام کی رائے کو اہمےت دی جاتی ہے اور اب اسرائےل اور امرےکہ کی فوجی مشقوں مےں ترکی نے عدم شرکت کا فےصلہ کےا ہے تو ےہ بھی اس کی آزادی اور خود مختاری کا مظہر ہے۔
چومسکی نے مغرب کی حکومتوں کے بارے مےں کہا کہ وہ تھوسی ڈائڈس Thucy dides کے اصول پر عمل کرتی ہےں جو ےوں ہے کہ طاقتور اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے کمزور لوگ اس کا نقصان اٹھاتے ہےں جو ان کےلئے لازم اور ضروری ہے۔
مزےد برآں مغرب اپنے عوام کو خوف Fear Factor سے بھی ہانک رہا ہے۔ چنانچہ مےڈےا اور دانشوروں کی سازشی اجتماعےت سے عوام کو باور کراےا جاتا ہے کہ ان کی حکومت جو مظالم ڈھا رہی ہے وہ ”قومی دفاع“ کےلئے ہےں اور دوسرے ملکوں مےں مداخلت انسانےت کی خدمت کے لئے؟ اس سے بڑا جھوٹ اور کےا ہو سکتا ہے۔
افغانستان کی جنگ کے بارے مےں چومسکی کا نقطہ نظر ےہ ہے کہ اوباما نے نےٹو کو استعمال کر کے جارج ڈبلےو بش کی چھےڑی ہوئی جنگ کو وسعت دے دی ہے۔
مزےد برآں ےہ بھی دےکھا جا رہا ہے کہ امرےکہ تےل کی توانائی پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کےلئے بھی نےٹو کو استعمال کر رہا ہے۔ ےہ تصور حقےقت پر مبنی تھا کہ مشرق وسطیٰ کے تےل کے چشمے تزوےراتی طاقت کا عظےم ترےن ذخےرہ ہےں۔ دنےا کی تارےخ مےں اسے قدرت کے بڑے بڑے مادی انعامات مےں شمار کےا جاتا ہے۔
آئزن ہاور کے الفاظ نے ”تےل کے اس ذخےرے نے ہی اس خطے کو تزوےراتی اہمےت عطا کر دی ہے۔“ مشرق وسطیٰ پر امرےکہ کا کنٹرول درحقےقت پوری دنےا پر امرےکی کنٹرول کے مترادف ہے اس کا مطلب ےہ ہے کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کےلئے امرےکہ مشرق وسطیٰ مےں جمہورےت کا راستہ روک رہا ہے‘ ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے اور ظالمانہ اور آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
صومالےہ‘ دارفور اور کانگو مےں امرےکی عےاری کی مثالےں پےش کرنے کے بعد چومسکی نے حماس سے ”سےز فائر“ توڑنے کا الزام اسرائےل پر عائد کےا اور غزہ کے محاصرے کو جنگ سے تعبےر کےا‘ بش اور اوباما نے اسرائےل کو امداد بند کرنے کی دھمکی تک نہےں دی‘ دونوں نے اسرائےل پر حقےقی معنوں مےں کبھی دباو¿ نہےں ڈالا اور اس کی سرپرستی اور معاونت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان حالات مےں اسرائےل کو کےا ضرورت ہے کہ وہ فلسطےن سے اوباما کی کھوکھلی ہمدردی پر اعتراض کرے۔
حالات کی نامساعدت کو نوآم چومسکی نے تسلےم کےا لےکن انہوں نے خےال ظاہر کےا کہ اسرائےل کے انسانی جرائم اب منکشف ہو رہے ہےں اور رائے عامہ امرےکہ اور برطانےہ کے خلاف ہوتی جا رہی ہے تاہم اسرائےل اپنا وطےرہ تبدےل نہےں کرےگا اس کےلئے مغربی ممالک اور بالخصوص امرےکہ مےں رائے عامہ بےدار کرنے اور حقائق سے آگہی کو فروغ دےنے کی ضرورت ہے۔ عوامی دباو¿ سے حالات کا رخ موڑا جاسکتا ہے اور اس کےلئے ضروری ہے کہ حکومتوں کے دروغ پر مبنی پروپےگنڈے کے برعکس عوام کو سچی باتوں اور عرےاں حقےقتوں سے باخبر رکھا جائے اور مختلف مسائل و معاملات پر انہےں اپنی رائے خود بنانے کا موقع دےا جائے۔
نوم چومسکی کی تقرےروں کے مندرجہ بالا اقتباسات مےں اہل پاکستان کےلئے سوچنے کا بہت سا مواد موجود ہے۔ ہمےں اےک آزاد ملک کی نعمت سے قائداعظم محمد علی جناح سرفراز کر گئے لےکن انکی وفات کے بعد ملک کی حکومت پر بےوروکرےسی نے قبضہ کر لےا اور پاکستانی عوام کو متحدہ قوم بنانے کا عمل کمزور پڑتا چلا گےا اور اب اکےسوےں صدی کے پہلے دہے (عشرہ) مےں جنرل پروےز مشرف کے فوجی شبِ خون اور اب صدر زرداری کی نااہلی اور بدعملی سے امرےکی عملداری اتنی بڑھ گئی ہے کہ آزادی کا تصور ہی معدوم نظرآ رہا ہے اور امرےکی بالادستی مےں قوم غلامی کی زنجےروں مےں پھنسی ہوئی نظرآ رہی ہے۔
چومسکی نے اپنی متذکرہ بالا تقرےروں مےں پاکستان کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات کا تجزےہ نہےں کےا لےکن انہوں نے عوام کی قوت پر جس اعتماد کا اظہار کےا ہے وہ اےک عملی پےغام کی حےثےت رکھتا ہے اور اس پےغام سے پاکستان کے پسے ہوئے‘ کچلے ہوئے اور حکومت گزےدہ عوام بھی استفادہ کر سکتے ہےں بلاشبہ عوام الناس کا پُرامن احتجاج ہی پاکستان کی تقدےر تبدےل کر سکتا‘ عقابوں کے نشےمن کو زاغوں کے نرعے سے نجات دلا سکتا ہے‘ جمہورےت کی بقا کا ضامن بن سکتا ہے۔
2003 مےں جب ترکی نے عوام کے مطالبے پر عراق پر حملے مےں امرےکہ کا ساتھ نہےں دےا تھا تو ترکی نے واقعی اےک آزاد ملک کا حقےقی کردار ادا کےا تھا اور اس حملے کےخلاف اپنے عوام کی رائے کو اہمےت دی تھی۔ اٹلی اور سپےن نے اپنے عوام کی رائے کو عراق کےخلاف امرےکی جنگ کی سخت مخالف تھی اہمےت نہ دی امرےکی صدر جارج ڈبلےو بش کی حماےت کی اور اپنی فوجےں بھےج دیں۔
چنانچہ اٹلی اور سپےن کے مقابلے مےں ترکی زےادہ جمہوری ملک ہے جہاں عوام کی رائے کو اہمےت دی جاتی ہے اور اب اسرائےل اور امرےکہ کی فوجی مشقوں مےں ترکی نے عدم شرکت کا فےصلہ کےا ہے تو ےہ بھی اس کی آزادی اور خود مختاری کا مظہر ہے۔
چومسکی نے مغرب کی حکومتوں کے بارے مےں کہا کہ وہ تھوسی ڈائڈس Thucy dides کے اصول پر عمل کرتی ہےں جو ےوں ہے کہ طاقتور اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے کمزور لوگ اس کا نقصان اٹھاتے ہےں جو ان کےلئے لازم اور ضروری ہے۔
مزےد برآں مغرب اپنے عوام کو خوف Fear Factor سے بھی ہانک رہا ہے۔ چنانچہ مےڈےا اور دانشوروں کی سازشی اجتماعےت سے عوام کو باور کراےا جاتا ہے کہ ان کی حکومت جو مظالم ڈھا رہی ہے وہ ”قومی دفاع“ کےلئے ہےں اور دوسرے ملکوں مےں مداخلت انسانےت کی خدمت کے لئے؟ اس سے بڑا جھوٹ اور کےا ہو سکتا ہے۔
افغانستان کی جنگ کے بارے مےں چومسکی کا نقطہ نظر ےہ ہے کہ اوباما نے نےٹو کو استعمال کر کے جارج ڈبلےو بش کی چھےڑی ہوئی جنگ کو وسعت دے دی ہے۔
مزےد برآں ےہ بھی دےکھا جا رہا ہے کہ امرےکہ تےل کی توانائی پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کےلئے بھی نےٹو کو استعمال کر رہا ہے۔ ےہ تصور حقےقت پر مبنی تھا کہ مشرق وسطیٰ کے تےل کے چشمے تزوےراتی طاقت کا عظےم ترےن ذخےرہ ہےں۔ دنےا کی تارےخ مےں اسے قدرت کے بڑے بڑے مادی انعامات مےں شمار کےا جاتا ہے۔
آئزن ہاور کے الفاظ نے ”تےل کے اس ذخےرے نے ہی اس خطے کو تزوےراتی اہمےت عطا کر دی ہے۔“ مشرق وسطیٰ پر امرےکہ کا کنٹرول درحقےقت پوری دنےا پر امرےکی کنٹرول کے مترادف ہے اس کا مطلب ےہ ہے کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کےلئے امرےکہ مشرق وسطیٰ مےں جمہورےت کا راستہ روک رہا ہے‘ ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے اور ظالمانہ اور آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
صومالےہ‘ دارفور اور کانگو مےں امرےکی عےاری کی مثالےں پےش کرنے کے بعد چومسکی نے حماس سے ”سےز فائر“ توڑنے کا الزام اسرائےل پر عائد کےا اور غزہ کے محاصرے کو جنگ سے تعبےر کےا‘ بش اور اوباما نے اسرائےل کو امداد بند کرنے کی دھمکی تک نہےں دی‘ دونوں نے اسرائےل پر حقےقی معنوں مےں کبھی دباو¿ نہےں ڈالا اور اس کی سرپرستی اور معاونت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان حالات مےں اسرائےل کو کےا ضرورت ہے کہ وہ فلسطےن سے اوباما کی کھوکھلی ہمدردی پر اعتراض کرے۔
حالات کی نامساعدت کو نوآم چومسکی نے تسلےم کےا لےکن انہوں نے خےال ظاہر کےا کہ اسرائےل کے انسانی جرائم اب منکشف ہو رہے ہےں اور رائے عامہ امرےکہ اور برطانےہ کے خلاف ہوتی جا رہی ہے تاہم اسرائےل اپنا وطےرہ تبدےل نہےں کرےگا اس کےلئے مغربی ممالک اور بالخصوص امرےکہ مےں رائے عامہ بےدار کرنے اور حقائق سے آگہی کو فروغ دےنے کی ضرورت ہے۔ عوامی دباو¿ سے حالات کا رخ موڑا جاسکتا ہے اور اس کےلئے ضروری ہے کہ حکومتوں کے دروغ پر مبنی پروپےگنڈے کے برعکس عوام کو سچی باتوں اور عرےاں حقےقتوں سے باخبر رکھا جائے اور مختلف مسائل و معاملات پر انہےں اپنی رائے خود بنانے کا موقع دےا جائے۔
نوم چومسکی کی تقرےروں کے مندرجہ بالا اقتباسات مےں اہل پاکستان کےلئے سوچنے کا بہت سا مواد موجود ہے۔ ہمےں اےک آزاد ملک کی نعمت سے قائداعظم محمد علی جناح سرفراز کر گئے لےکن انکی وفات کے بعد ملک کی حکومت پر بےوروکرےسی نے قبضہ کر لےا اور پاکستانی عوام کو متحدہ قوم بنانے کا عمل کمزور پڑتا چلا گےا اور اب اکےسوےں صدی کے پہلے دہے (عشرہ) مےں جنرل پروےز مشرف کے فوجی شبِ خون اور اب صدر زرداری کی نااہلی اور بدعملی سے امرےکی عملداری اتنی بڑھ گئی ہے کہ آزادی کا تصور ہی معدوم نظرآ رہا ہے اور امرےکی بالادستی مےں قوم غلامی کی زنجےروں مےں پھنسی ہوئی نظرآ رہی ہے۔
چومسکی نے اپنی متذکرہ بالا تقرےروں مےں پاکستان کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات کا تجزےہ نہےں کےا لےکن انہوں نے عوام کی قوت پر جس اعتماد کا اظہار کےا ہے وہ اےک عملی پےغام کی حےثےت رکھتا ہے اور اس پےغام سے پاکستان کے پسے ہوئے‘ کچلے ہوئے اور حکومت گزےدہ عوام بھی استفادہ کر سکتے ہےں بلاشبہ عوام الناس کا پُرامن احتجاج ہی پاکستان کی تقدےر تبدےل کر سکتا‘ عقابوں کے نشےمن کو زاغوں کے نرعے سے نجات دلا سکتا ہے‘ جمہورےت کی بقا کا ضامن بن سکتا ہے۔