پیر‘ یکم ذیقعد‘ 1444ھ‘ 22 مئی 2023ء

کور کمانڈر ہائوس میں دیوار ندامت بنانے پر غور
بے شک قومی سطح پر سانحہ جتنا دلخراش ہو اسے یاد رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی یادگار بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خواہ وہ دیوار گریہ ہو یا دیوار ندامت۔ زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں انہیں یاد رکھتی ہیں تاکہ آئندہ ان سے بچا جا سکے۔ اگر ہم نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک کے ہر شہر میں ایک ایک باب ندامت بنایا ہوتا اور ہر سال وہاں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے تقریبات ہوتیں تو شاید آج جو ہم سیاسی ، لسانی ، صوبائی نفرتوں کا کاروبار کر رہے ہیں اس مکروہ کاروبار سے محفوظ ہوتے۔
اس وقت پورے ملک میں صرف مسلح افواج ہی وہ ادارہ ہے جہاں سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچ، کشمیری ، گلگتی مہاجر صرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچتے ہیں۔ اگر کوئی ان میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا سدباب بے حد ضروری ہے کیونکہ نفرتوں کی یہ آگ اس منظم ادارے سے کوسوں دور ہے۔ عوام اور فوج میں نفرتوں کی خلیج پیدا کرنے والے ہر شخص خواہ کتنا بڑا مصلح، سیاستدان یا کوئی بھی ہو کے گھر کے باہر بھی ایک دیوار خجالت بنا کر لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ لوگ ہمارے لئے باعث خجالت ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اپنے منفی رویوں پر ابھی تک ندامت نہیں ہو رہی وہ فیک نیوز ، تصاویر اور ویڈیو دھڑا دھڑ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے ہیں۔
ایسے لوگوں کے لیے قانون کی گرفت کو دیوار گریہ بنانا ہو گا۔ تاکہ یہ اس کے پنجے میں آنے کے بعد گریہ کناں ہوں اور انہیں شاید اپنے کیے پر ندامت ہو اور ہاں یاد رہے تالیف قلوب کے لیے بھی ہر شہر میں گائوں میں ایک دیوار مہرباں بھی قائم کریں جہاں متمول لوگ غریب غربا کے لیے ضروری سامان رکھ دیا کریں۔ لباس، جوتے، خوراک وغیرہ کی شکل میں تو یہ عمل بھی بہت اچھے نتائج دے گا۔
٭٭٭٭٭
دبئی میں چاند کو زمین پر لانے اور وہاں رہنے کا منصوبہ
ہمیں ابھی تک چاند چہروں کو دیکھنے سے فرصت نہیں ہے۔ عید کا چاند ہمیں بڑ ی مشکل سے نظر آتا ہے اور دنیا کے لوگ چاند کو زمین پر لا رہے ہیں۔ جی ہاں جب پیسہ بے شمار ہو تو انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ جو فلک بوس عمارتیں ہیں یہ بھی تو آسمان کو چھونے کی خواہش کی تکمیل کے لیے بنتی ہیں ورنہ اتنی بلند عمارتوں میں کونسی ہمہ وقت چہل پہل رہتی ہے۔ خاص طور پر عرب ممالک میں تو ویسے ہی آبادی کم ہے۔ صنعتی و تجارتی میدان میں سوائے تیل۔اونٹ یا کھجور کے اور کوئی قابلِ ذکر پروڈکٹ وہاں نہیں۔ وہاں عالی شان عمارتوں کی دوڑ لگی ہے۔ جدت اور ترقی کا مزہ برحق مگر جب یہ کالا سونا ختم ہو گا تو تب کیا ہو گا۔ مستقبل کی فکر سب حکمرانوں کو کرنی چاہیے۔ اب ایک مغربی ملک کی سرمایہ کار کمپنی کے تعاون سے ایک اور بلند عمارت دبئی میں قائم کی جائے گی جس کی چھت پر ایک گول چاند بنا ہو گا جو آسمانی چاند کی طرح ہر روز اپنی ہیئت بدلتا رہے گا۔ کبھی پہلی کا کبھی ساتویں کا کبھی چودھریں کا کبھی تئیسویں اور کبھی 30 واں چاند نظر آئے گا۔ اس گول عمارت میں یعنی زمینی چاند میں لوگ چہل قدمی کریں گے۔ رہیں گے الغرض چاند میں رہنے والا خواب پورا کریں گے۔ یہ ایک زبردست تخیلاتی منصوبہ ہے جو چاند کو دیکھنے کے ساتھ چاند پر رہنے کی خواہش کو بھی پورا کرے گا۔
حیرت کی بات ہے مغربی ممالک میں جہاں ہر سہولت اور دولت موجود ہے وہاں کے حکمران ایسی فضول خرچی کی اجازت کیوں نہیں دیتے۔ وہاں مصنوعی سے زیادہ حقیقی مسائل اور ترقی کی راہ کو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے دولت مند حکمران زمین پر رہنے والوں کے مسائل حل کرنے سے زیادہ آسمانوں پر قدم رکھنے کی خواہش تخیلاتی عمارتیں بنا کر پورا کرتے ہیں بہتر ہوتا یہ سائنس و ٹیکنالوجی ، علم و فن اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے ممالک کو ترقی دے کر آگے بڑھتے اور پھر چاہے مشتری، زہرہ، مریخ پر جا کر آبادیاں قائم کرتے۔ مگر ایسا مغربی اقوام کر رہی ہیں جنہوں نے مسلم حکمرانوں کو بے وقوف بنا رکھا ہے۔
٭٭٭٭٭
عمران کے امریکی رکن کانگریس کو ترلے اور زلمے خلیل زاد کی لغویات۔
پی ٹی آئی کے رہنما ایک قد آور سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد نے انہیں مرشد کا درجہ دے رکھا ہے۔ مگر سیاست میں وہ جس طرح پے درپے قلابازیاں کھانے کا ریکارڈ قائم کر رہے ہیں وہ ان کے کھیل کے میدان کے ریکارڈز سے زیادہ ہے۔ حکومت چھوڑی خود اور کاغذ لہرایا امریکہ نے سازش کر کے حکومت ختم کرائی۔ لاکھوں مریدوں نے ایمان لایا۔ پھر اچانک کہا سابق آرمی چیف نے سازش کر کے میری حکومت کا تختہ الٹا۔ مریدوں نے اقرار میں سر ہلایا۔ پھر کہا پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ نے فوج کی مدد سے میری حکومت ختم کرائی۔ مریدوں نے یقین کر لیا۔ اب وہ امریکی ارکان کانگریس کو یکے بعد دیگرے فون کر کے رابطہ کرکے اپنی حمایت اور امریکہ دوستی کا یقین دلا رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہے۔ وہ امریکہ ٹھاہ۔ امریکہ مردہ باد، والا خطرناک انقلابی بیانیہ امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے کے شعلہ بار نعرے اب کیوں ٹھس ہو گئے ہیں۔ اب اسی سے منتیں کی جا رہی ہیں کہ مجھے بچائو میری وفائوں پر یقین کرو مجھے دوبارہ کرسی پر بٹھائو۔ جس پر حکومت گرانے کا الزام لگایا۔
کیا اس کا جواب خود خان یا اس کے مریدوں کے پاس ہے۔ کیا کرسی کے لیے اس سے پہلے کوئی سیاستدان اتنا گرا تھا۔ ہمارے ہاں تو آج تک ’’جو سوئے دار سے نکلے تو کوئے دار چلے‘‘ والا بیانیہ اور جگرا رکھنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ اب سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کوڑی کوڑی کے غیر ملکی قابلِ نفرت ایجنٹ بھی ہماری قوم اس کے افتخار اور ایٹمی پروگرام کے محافظوں کے خلاف گزگز بھر لمبی زبانیں نکلے انٹ شنٹ بول رہے ہیں۔ خاص طور پر زلمے خلیل زاد کو کچھ زیادہ ہے مروڑ اٹھ رہے ہیں جو فوج، فوج کے سربراہ اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے سب اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ مگر چونکہ خان صاحب کے بیانیے کو اس سے تقویت ملتی ہے اس لیے عمران خان اور پی ٹی آئی والے اسے غیبی امداد سمجھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ حکومت اور پاکستانی عوام خاص کر تارکین وطن کو چاہیے کہ وہ زلمے خلیل زاد جیسے غیر ملکی بھگوڑے کو سخت الفاظ میں شٹ اپ کی کال دے کر اس کو لگام ڈالیں۔
٭٭٭٭٭
خوراک مہنگی ہونے سے عوام کی قوت خرید میں 38 فیصد کمی
حکمرانوں کو سیاسی جنگ سے فرصت ملے تو وہ زندگی کی جنگ لڑنے والے کروڑوں لوگوں کی فکر کریں جو پاکستان کے عوام کہلاتے ہیں۔ چند فیصد اشرافیہ،مافیاز اور لٹیروں نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی جو خود تو عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ کروڑوں لوگ کھانے پینے سے محتاج ہو رہے ہیں۔ امرا کے دستر خوان پھیل رہے ہیں۔ غربا کے سکڑ رہے ہیں۔ بقول شاعر
اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اب روٹی سالن کے ساتھ کھانا بھی عیاشی کے زمرے میں آنے لگا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید اب اتنی بھی نہیں رہی کہ وہ ایک کلو سبزی یا دال ہی خرید سکیں دالیں تو گوشت کے بھائو بک رہی ہیں۔ غریبوں کے گھروں میں جا کر دیکھیں تو پتہ لگتا ہے کہ ملک میں قحط پڑ چکا ہے۔ خالی دستر خوان پر سادہ روٹی اور ایک چائے یا پانی میں ابلے سالن کا پیالہ حکمرانوں کی بے نیازی کا ثبوت دیتا ہے۔ دوسری طرف امرا کے دستر خوان دیکھیں تو لگتا ہے پاکستان دنیا کا خوشحال ترین ملک ہے۔ بے شمار انواع قسم کے کھانے سجے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے مصلح، واعظ، حکمران اور سیاسی گماشتے ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہیں۔ خلفائے راشدین کی مثالیں دیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ وہ خود سب سے غریب آدمی کے برابر تنخواہ لیتے تھے اور روکھی سکھی کھاتے ہیں۔ کیا تیتر، ہرن اور مرغابی کا گوشت کھانے کے عادی ہمارے حکمران ایسی جرأت کر سکتے ہیں۔ ایسی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا مہنگائی بڑھتی رہے گی اور غریبوں کے دسترخوان سمٹتے رہیں گے۔ بروز حشر اس کا حساب یاد رہے یہی حکمران سیاستدان ،مافیاز اور امرا دیں گے۔
٭٭٭٭٭