بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
ہمارے معاشرے میں عورت کی حیثیت کیا ہے اس کا اندازہ تو بیٹیوں کی پیدائش پر روا رکھے جانے والے عمومی اظہار افسوس اور لعن طعن سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ عموما بیٹے کی پیدائش تک خاندان میں اضافہ جاری رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، چاہے اس کوشش میں پہلے سے موجود بیٹیوں کی بہتر صحت، خوراک اور تعلیم کو نظرانداز ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ رویہ زیادہ تر ایشیا میں ہی ہے اور ملک پاکستان ہو یا بھارت وہاںپر بیٹیوںکی پیدائش کے بعد والدین کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ آگے کی زندگی کیسے گزرے گی۔بھارتی ریاست تامل ناڈو کی خاتون نے شادی کے صرف 15 دن بعد اپنے شوہر کو کھو دیا، اس نے مردوں کے معاشرے میں زندگی گزارنے کیلئے انوکھا کام کیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 20 سال تھی جبکہ وہ حاملہ بھی تھیں تاہم کئی مہینوں بعد انہوں نے بیٹی کو جنم دیا۔شوہر کی موت کے بعد اپنا گزر بسر کرنے کیلئے انہیں کام شروع کرنا پڑا لیکن ریاست تامل ناڈو کی پٹی گاؤں کے پدرانہ سماج میں یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہوٹلوں اور دیگر جگہوں پرکام کرنا شروع تو کیا لیکن گاؤں کے لوگ انہیں ہراساں کرنے لگے اور ان کو جنسی طعنے دینے لگے۔تاہم اس کے بعد اس خاتون نے اپنے بالوں کو کاٹ کر ، لباس کو قمیض اور لنگی میں تبدیل کر کے خود کو مرد کے نام سے نئی شناخت دینے کا فیصلہ کیا۔57 سال کی خاتون کے مطابق صرف میرے قریبی رشتے دار اور میری بیٹی کو معلوم تھا کہ میں ایک عورت ہوں۔اس خاتون نے اپنی بیٹی کو محفوظ مستقبل فراہم کرنے کیلئے کئی طرح کی نوکریاں کیں تاہم مرد کا نام اور روپ اسکی شناخت بن گیا۔بیٹی کی شادی کے بعد بھی اس نے اپنی مرد کی شناخت اور نام کو نہ چھوڑنے کا سوچا، اسکی وجہ بھارت میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد میں تو بہتری آئی ہے مگر اب بھی زیادہ تر خاندان لڑکے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔بھارتی حکومت کے ایک سروے کا حصہ بننے والے 80 فیصد کے قریب افراد نے کہا وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بیٹے کے خواہشمند ہیں۔
بھارت میں بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کو ترجیح دینے کے پیچھے یہ روایتی خیال موجود ہے کہ بیٹا خاندان کے نام کو آگے بڑھاتا ہے اور بڑھاپے میں والدین کا خیال رکھتا ہے جبکہ بیٹیاں شادی کے بعد سسرال چلی جاتی ہیں اور انکے جہیز پر بہت زیادہ خرچہ بھی ہوتا ہے۔
بھارت میں 2019ء سے 2021ء کے دوران ایک سروے ہوا جس میں پہلی بار لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش کی شرح میں بہتری آئی مگر اب بھی زیادہ تر خاندان بیٹوں کی پیدائش چاہتے ہیں۔سروے میں بتایا گیا کہ اب بھی 15.37 فیصد خاندان بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں ، یہ شرح 2015-16 میں لگ بھگ 18 فیصد تھی۔
سروے کیمطابق اب بھی ایک بیٹے کی خواہش میں متعدد جوڑوں کی جانب سے بیٹیوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ بیٹوں کے مقابلے میں زیادہ بیٹیوں کے خواہشمند خاندانوں کی تعداد بڑھ کر 5.17 فیصد ہوگئی ہے جو 2015-16 میں 4.96 فیصد تھی۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کا براہ راست تعلق بھارت میں پیدائش کی شرح میں کمی ہے۔شہری علاقوں کی توسیع، خواتین کیلئے تعلیمی شرح میں اضافہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر بھارت میں شرح پیدائش فی جوڑا 2 تک پہنچ گئی ہے۔
زمانہ قبل از اسلام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عالم انسانیت مختلف قسم کی معاشرتی و اخلاقی بیماریوں سے دوچار تھا، تعلیم و تربیت کا فقدان تھا، ظلمت وجہالت عروج پر تھی،غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، ایسے میں ظالمانہ و جاہلانہ رسومات کا جنم لینا ایک بدیہی سی بات ہے، ایسی ہی جاہلانہ رسومات میں سے ایک قبیح رسم بعض قبیلوں میں بیٹی کو زندہ درگور کرنے کی بھی تھی، اِس رسم کی بنیاد بے جا غیرت پر مبنی تھی کہ کل کسی کوبیٹی دینی نہ پڑے، کوئی ہمارا داماد بن نہ سکے، کسی کے سامنے ہماری نظریں جھک نہ سکیں،اِس لئے جو بھی بیٹی کسی کے گھر میں پیدا ہوتی وہ اسے زندہ زمین میں دفن کردیتا۔اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ بیٹے کیلئے دبائو خواتین و حضرات دونوں کی جانب سے ڈالا جاتا ہے، بلکہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دبائو کا سامنا محض خواتین ہی کرتی ہیں۔ معاشرے میں اپنی حیثیت کمزور ہونے کے سبب خواتین تحفظ کیلئے خود سے وابستہ مرد رشتوں کی محتاج ہیں۔ اگر باپ اور بھائی کا سایہ سر پر ہوگا اور وہ خیال کرنے والے ہوں گے تو سسرال میں حیثیت مضبوط ہو گی، اگر بیٹے ہوں گے تو بطور بیوی حیثیت مضبوط ہو گی۔ اسلام خواتین کی عزت ، احترام اور حفاظت کا درس دیتا ہے، خواتین کے حقوق اسلام کی بنیادی اقداراور سیرت رسول اکرمؐ سے رہنمائی حاصل کرکے عملی بنانا ہوگا۔ خواتین کے حقوق کے قوانین پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرنا ہوگا جبکہ خواتین کے حقوق اور وراثت میں حصہ بھی یقینی بنانا ہوگا۔ ماں جنت، بہن عزت، بیٹی رحمت ہے۔ بیٹی کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہے۔ ہماری خواتین قومی اورعالمی سطح پر ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کوثابت کررہی ہیں۔