سچ تو یہ ہے؟
مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب ’’پاناما‘‘ آیا تھا تو مرحوم صدر ممنون حسین نے بے ساختہ کہا تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے عذاب ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پی پی اور ن۔ لیگ اِن دو بڑی پارٹیوں اور ہم بدقسمت پاکستانی عوام نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عمران خان بھی کسی وقت حکومت بنائے گا۔ پاک فوج کو سائیڈ پر رہنے دیں، ورنہ کہانی دور تلک جائے گی۔ سیاست دان جب اس حد تک نااہل ہوتے ہیں کہ سیلاب اور زلزلے کی تباہ کاریوں پر بھی قابو نہیں پا سکتے اور فوج جس کا کام صرف ملکی دفاع ہے۔ یہ کام بھی اُس سے لیتے ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ بھی سیاست دان جو فوج کو آئین پڑھاتے نہیں تھکتے پولیس و دیگر سیکورٹی فورسز کا کام ہے۔ فوج صرف ملکی سلامتی و دفاع کی ضامن ہے۔ جب فوج سے یہ سارے غیر آئینی کام (جو آپ نااہلی سے نہیں کرسکتے) فوج سے لیتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ الیکشن جس سے ملک میں منتخب حکومت قائم ہوتی ہے۔ اسی حکومت نے اندرون و بیرون ملک معاملات آگے بڑھانے ہوتے ہیں۔ تو فوج اِس سے کیوں اور کس لیے دُور رہے؟ ہاں بات کدھر نکل گئی۔ اِن دونوں بڑی پارٹیوں نے سوچ لیا تھا کہ اس قوم کی تقدیر صرف ہمارے ہاتھوں میں ہے؟ مُک مُکا کے فارمولے کے تحت اِن کو ’ہانکتے‘ رہیں گے۔ بارہ سال بعد کہتے ہیں کہ روڑی کی بھی سُنی جاتی ہے۔ ہمیں تو ۷۴ سال ہوگئے سِسک سِسک کر جیتے۔ قیامِ پاکستان کے مقاصد کا تو ان کو علم تک بھی نہیں۔ بغیر احتساب کے یہ لوگ کھربوں پتی بنے ہوئے ہیں اور عوام ابھی بھی اپنے مسائل کی وجہ سے رونے پر مجبور ہیں۔ معذرت کے ساتھ جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سارے سیاستدانوں کی تقاریر جو عوام کے بارے ہوں سب جھوٹ ہوتے ہیں۔ تعلیم کی کمی تو ہے ہی تاریخ سے بھی نابلد؟ فوج کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں عمران خان کی حکومت اللہ کے حکم سے بنی تھی۔ حقیقت سے نظریں چُرانا مناسب نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کا ساڑھے تین سال بعد خاتمہ کردیا گیا۔ کیسے ہوا یہ علیحدہ موضوع ہے۔ ساڑھے تین سال میں اڑھائی سال عمران خان کی حکومت کو ’’کرونا‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’کرونا‘‘ نے پوری دنیا کی معیشت کو برباد کیا اور لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے، اللہ کا کرم وطنِ عزیز میں جانی نقصان کم ہوا ہے، مگر پاکستان کی معیشت تو پہلے ہی وینٹی لیٹر پر تھی۔ ’’کرونا‘‘ سے مزید تباہی ہوئی۔ مگر ن۔ لیگ، پی۔ پی سمیت اِن تیرہ پارٹیوں میں کسی بھی فرد نے کسی بھی موقع پر مجال ہے کبھی ’’کرونا‘‘ کا ذکر تک کیا ہو۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ گذشتہ دِنوں بلاول زرداری نے کراچی میں اور حمزہ شہباز، مریم نواز نے مل کر گجرات میں جلسے سے خطاب کیا۔ حمزہ اور مریم کا یہ کہنا کہ چار سال کا حساب دو کتنی بڑی حماقت اور حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔بلاول زرداری کے وہی فقرے ناجائز، سلیکٹڈ اور کارکردگی دکھائو؟ کچھ تو خدا کا خوف کرو، آپ دونوں کی کارکردگی کیا ہے؟ پورے ملک میں ایک بھی معیاری اسپتال نہیں، پانی کی جو قلت آج کل ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ تھانہ کلچر کے لیے آپ دونوں نے کیا کیا؟ آپ دونوں پارٹیوں کی تیس سالہ کارکردگی پر تو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ آپ اُس سے تین سال کا حساب مانگتے ہو؟ بلاول صاحب سلیکٹڈ تو آپ تیرہ پارٹیاں ہیں۔ دو درجن ارکان آپ کے ضمانتوں پر ہیں۔ جتنا بڑا ملازم اسی قدر بڑا عہدہ بھی دیا گیا ہے۔ بلاول زرداری نے کہا کہ عمران مدینہ واقعے پر معافی مانگے۔ وہ شخص جو مدینہ شریف کی سرزمین پر جوتا پہن کر چلنا بھی گوارہ نہیں کرتا اور جنرل اسمبلی میں 75سالہ تاریخ میں پہلی بار پُوری دنیا کو بآواز بلند بتائے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔ اُس کو مدینہ شریف میں جو ہوا کا ذمہ دار ٹھہرانا غلطی ہوگی۔ آج صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں لوگ اُس کے لیے نکل رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ فوج کرا رہی ہے؟ نہیں بلاول زرداری صاحب اگر آپ اُسے پہلے سلیکٹڈ کہتے رہے ہیں تو اَب تو وہ اکیلا ہے آپ انتخابات میں اکیلے اُس کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔ انتخابی اتحاد کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اب پاکستانی قوم مکمل تو نہیں مگر کافی حد تک باشعور ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو قائم دائم رکھنا ہے انشاء اللہ۔ ہماری اینکر صاحبان تجزیہ نگاروں سے درخواست ہے کہ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کرونا کا ذکر ضرور کیا کریں۔ یہ حقیقت اور سچ ہے۔