دوہرا معیار ختم کریں
آج کا انسان سماجی ومعاشرتی ادب و احترام سے بہت دور دکھائی دیتا ہے جس طرف بھی نگاہ اٹھائو ! اکثریتی طور پر نفسا نفسی ، خود غرضی ،بے سکونی ،لاپرواہی اور بد اخلاقی کے ڈیرے ہیں ۔ کرخت ،چیختے چلاتے لہجے اور سخت گیر رو یے معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔ایسابے ہنگم سا اور پریشان خیال معاشرہ دو قومی نظریے کی بھی بیخ کنی کر رہا ہے اور دشمنان وطن پاکستانیوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر غفلت کے پردے فہم و ادراک پر ایسے پڑے ہیں کہ دکھائی اور سنائی کچھ نہیں دیتا ۔۔حالا نکہ حضور اکرم ؐ نے مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں ارشاد فرمائی :’’مسلمان وہ ہے ،جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ’’ زبان درازی سے زیادہ بری خصلت آدمی کیلئے اور کوئی نہیں‘‘ ۔حضور ؐ نے منافق کی تین علامات ارشاد فرمائیں : ’’پہلی یہ کہ بات کرے تو جھوٹ بولے ،دوسری یہ کہ کسی سے بات کرے تو بد کلامی کرے ،تیسری یہ کہ کسی سے وعدہ کرے تو پورا نہ کرے ‘‘جبکہ معاشرے کی خوبصورتی میانہ روی ،تحمل مزاجی ،رواداری اور عدل و انصاف میں ہے اگر ان کا فقدان ہو تو جارحیت ، شدت پسندی ،بے راہ روی ، اضطراب ، پریشانی ،نا شکری اور لاقانونیت جیسے رویے جنم لیتے ہیں ۔عدم برداشت نے ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے ۔۔ہم پتھر کا جواب اینٹ سے دینا ،کمزور کو دبانا اور طاقت کے زور پر جھکانا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ان جارحانہ اور غیر مہذبانہ رویوں کی وجہ کیا ہے ؟ وہ کونسے عوامل ہیں جو ہماری معاشرتی اساس کو کمزور کر رہے ہیں تو واضح ہے کہ جب کسی انسان کے بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں ، حقدار کو حق نہ ملے ، طبقاتی نا ہمواری کا ماحول ہو ، عدل میں تاخیر ہو اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی نہ ہوجبکہ اشرافیہ ہر قسم کے قانون سے بالاتر نظر آئے ، معاشی حالات بس سے باہر ہو جائیں ، خواہشات اور ضروریات خواب و خیال بن جائیں تو عدم برداشت اور عدم رواداری کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہوتا ہے ان حالات میں وہی شخص نرم گفتار اور بردبار رہتا ہے جس کا اللہ پر کامل ایمان ہوتا ہے ورنہ تو ان حالات میں انسان اپنا دشمن ہوجاتا ہے چہ جائیکہ وہ دوسروں سے اچھا برتائو کرے ۔جبکہ خوش اخلاقی اور شیریں کلام کی اہمیت مسلمہ ہے کہ پرانے وقتوں میں بادشاہ عوام کے لیے اتنا سوچتے تھے کہ بسا اوقات عوام الناس پر اور انکے ساتھ ہونے والے حادثات بارے بادشاہوں کو خوابوں میں اشارے مل جاتے تھے اور اس کے مطابق اقدامات کی کوشش کی جاتی تھی مگر آج کے حکمران اپنے مفادات کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھتے ۔ایسا ہی ایک بادشاہ تھا جو خوابوں پر یقین رکھتا تھا اوراسکے خواب ممکنہ حادثات و واقعات کی نشاندہی بھی کرتے تھے ۔ایک دفعہ بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اسکے تمام دانت گر چکے ہیں ۔بادشاہ نے نجومی بلوایا اور اس سے خواب بیان کیا ۔نجومی نے خواب سنا تو اس کا رنگ فق ہوگیا اور اعوذ باللہ اعوذباللہ کہنے لگے ۔بادشاہ نے گھبرا کر دریافت کیا : ’’کیا تعبیر ہے اس خواب کی ؟‘‘ نجومی نے ڈرتے ڈرتے کہا : ’’چند سال کے بعد آپ کے خاندان کے سب افراد وفات پا جائیں گے اور آپ سلطنت میں اکیلے رہ جائیں گے اور دشمنوں کے ہاتھوں بری طرح مارے جائیں گے ۔یہ سُن کر بادشاہ کو طیش آگیا اور اسے کوڑے لگانے کے بعد قید خانے میں پھینکنے کا حکم دے دیا۔اس کے بعد دوسرانجومی حاضر کرنے کا حکم دیا ۔وہ آیا اور بادشاہ نے اسے خواب سنایا اور تعبیر پوچھی ۔۔نجومی خوش رُوئی سے مسکرایا اور بولا :’’ بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو ۔۔خوشی کی بات ہے۔بادشاہ نے پوچھا :’’وہ کیسے ؟‘‘ نجومی نے مسکرا کر جواب دیا : ’’اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کی عمر لمبی ہوگی ، آپ خاندان میں سب سے آخر میں فوت ہونگے اور تمام عمر بادشاہ رہیں گے ۔‘‘ بادشاہ یہ تعبیر سن کر بہت خوش ہوا اور انعام و کرام دیکر رخصت کیا ۔۔بات ایک ہی تھی کہ جب آپ مریں گے آپ کے اہل خاندان پہلے ہی مر چکے ہونگے مگر مختلف طریقوں سے کہی گئی تو نتائج بھی مختلف نکلے ۔۔افسوس ہمارے پاس دینی اور دنیاوی تمام علوم میں خوش خلقی اور ایک دوسرے کو برداشت کر کے ساتھ چلنے کی نصیحت کی گئی ہے مگرہم دنیاوی لذتوں کے حصول میں زیاں کا احساس ہی کھو چکے ہیں ’’ان الانسان لفی خسر ‘‘ بے شک انسان خسارے میں ہے ‘‘ آئے روز عدم برداشت کے لرزہ خیزواقعات اورغیر مہذبانہ خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں کہ کروطن عزیز میں قحط ساسماں پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور ایسی پیشین گوئیاں بھی کی جا رہی ہیں اور ہمارے سبھی سیاستدان آپس میں دست و گریبان ہیں اور سبھی اقتدار پانے کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں پھر وہ بے شک غریب ووٹرز اور سپوٹرز کی لاشیں ہی کیوں نہ ہوں۔عوام سوچ رہے ہیں کہ یہ اتنے بد لحاظ کیوںہیں جبکہ بد لحاظی کے لیے ذات ،قوم اور وراثت شرط نہیں ہوتی ؟آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اکثریتی بااثرشخصیات کے غیر مہذبانہ ،تحکمانہ اور طنزیہ لہجے ہمیشہ سے زیر بحث رہے ہیںکہ ۱یسی سینکڑوںمثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں جہاں لاقانونیت کا کھلے عام مظاہرہ کیا گیا لیکن کمزور ہی خسارے میں رہا اور خبر کے ہائی لائیٹ ہونے کے باوجود بھی حاصل حصول کچھ نہ ہوا ۔ یہی دیکھ لیں زیادتی کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں لیکن نامرد گی کی سزا کتنوں کو ملی ہے ؟اب سوشل میڈیا کی وجہ سے بلیک میلنگ اور ذاتی عناد میں عزتوں کی دھجیاں بکھیرنے کا نیا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جس کا تدارک بہر صورت ہونا چاہیے مگر تدارک کون کرے گا جن کی اپنی زبانیں قابو میں نہیں ؟ جب تک حکام بالا کے قول و فعل میں تضاد رہے گا اور وہ اپنی زندگیاں سیرت النبی ؐ ،قرآنی تعلیمات اور سیرت صحابہ کے مطابق نہیں گزاریں گے تب تک کچھ نہیں بدلے گا ۔