آزادیِ اظہارِ رائے آپ کا حق تو ہے مگر۔۔۔
آزادیِ اظہارِ رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے مگر حق کو استعمال کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اظہارِ رائے کے بھی کچھ اصول اور ضوابط ہیں۔ ہمیں انتہائی ذمہ داری اور احساس کے ساتھ ان کا حق ادا کرنا چاہیے۔ انسانی وقار اور مذہب اور مذہبی عقائد کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔آپ تنقید بھی کیجیے مگر تنقید کا مقصد تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح ہونا چاہیے۔ ہمیں ضرور مذہبی ، اخلاقی ، سماجی اور معاشرتی مسائل کی طرف توجہ کرنا چاہیے مگر ان کی اقدار کا خیال کرتے ہوئے اور مقصد ان کی اصلاح اور درستی ہو نا کہ کسی کی دل آزاری یا اس کو اذیت پہچانا، لہٰذا کسی بھی طبقے کے جذبات کی دل آزاری اظہارِ رائے کے زمرے میں نہیں آتی۔ آج کل انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص آزادیِ رائے کے نام پہ کسی بھی عقیدے یا مذہبی فرد یا ادارے کو بغیر جانچ پڑتال کے اس پہ بہتان اور الزامات کی بوچھاڑ کرتا دکھائی دیتا ہے جس کا نتیجہ معاشرے میں عدم تحفظ اور بے چینی اور انتشار کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس مہم میں مبتلا ہمارے سیاست دان سب سے آگے ہیں۔ آپ سیاست کیجیے دشمنی نہیں۔ اپنے وقاراور ظرف کا خیال رکھیں۔ اسی طرح ہر صحافی اور ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انتظامیہ اور حکومت اور اداروں میں موجود ہر شخص پر تنقید کر سکیں کیونکہ یہ حکومتیں اور ادارے اور انتظامیہ ہمارے ٹیکس اور پیسوں پہ پنپتے ہیں یہ ہمارا آئینی حق ہے کہ ہم ان کی کارکردگی پہ سوال اٹھائیں اور جواب طلبی کریں۔ جوابی کاروائی کے طور پہ نہ تو کسی کو اٹھایا جائے نہ ہی اسے ملک دشمن اور غداری کا الزام لگے۔ جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی باہم منسلک اور مشروط ہیں۔ پاکستان کا آئین ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے اور جمہوری نظام جس میں حکومت فرد کی مرضی سے ہوتی ہے تو ہر فرد یہ حق رکھتا ہے کہ وہ آواز ، تحریر اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ لازم ہے کہ وہ سچ ہو۔ آج کے دور میں ہم آزادیِ رائے کا نعرہ تو بلند کرتے ہیں پر ابھی بھی سچ بولنے پر میرے کچھ بھائیوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور اس کی پاداش میں سزا نوکری سے برطرفی کی صورت میں دی جاتی ہے مگر ابھی بھی میرے جہادی بھائی ڈٹے ہیں حق اور سچ کا علم اٹھائے ہوئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو حق اور سچ کا داعی ہے، جمہوریت کا صحیح معنوں میں ماننے والا ہے تو اس کو اس کا حق ملنا چاہیے اس کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے۔ اسی طرح جو جھوٹ کی صحافت اور آزادیِ رائے کے نام پہ جھوٹ اور فتنہ پھیلاتے ہیں، معاشرے میں انھیں ضرور قانون کا پابند کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔اس کے لیے چاہے سامنے والا کسی ادارے کا اعلیٰ عہدہ دار ہو یا کسی سیاسی پارٹی کا لیڈر۔خندہ پیشانی اور تحمل کے ساتھ تنقید برداشت کرنی چاہیے۔یہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک نہیں ترقی کر سکتا جب تک اس میں سچ اور جھوٹ غلط اور صحیح کا تعین نہ ہو۔ کسی بھی معاشرے میں منصف اور جج ایک معزز اور اعلیٰ مقام اور رتبے کا حامل ہوتا ہے۔ اسے اپنا منصب ایمان کے جیسے پیارا ہونا چاہیے، عدل اور انصاف اس کا منشور ہو اور وہ غیر جانبدار ہو اور متعصب نہ ہو۔ اسے یہ با ت کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ جو صحیح فیصلہ نہ کرے اس کامقام جہنم ہے(حدیث کا مفہوم )۔ سچ بولیے اور سچ کا ساتھ دیجیے۔